تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس مقام پر یہودیوں کی ایذا رسانی کے کچھ واقعات بھی تحریر کیے ہیں جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے۔ چنانچہ حضرت کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کعب بن اشرف یہودی کے متعلق نازل ہوئی جو بدبخت رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اشعار کے ذریعے سے ہجو کیا کرتا تھا اور اہل بیت خواتین استہزا کا نشانہ بناتا تھا حتی کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ کون ہے جو کعب بن اشرف کو لگام دے اور اس کا کام تمام کرے کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو بہت تکلیف دی ہے۔(صحیح البخاري، في الرھن في الحضر، حدیث:2510۔ وفتح الباري:291/8)
2۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی جگر پاش اور دل دوز تکالیف کا علاج بھی تجویز کیا ہے: "اور اگر تم صبر کرو اللہ سے ڈرتے رہو تو یہ بڑے حوصلے کاکام ہے۔" (آل عمران:186/3) ایسے حالات میں صبر سے کام لینا ہو گا اور تقوی اختیار کرنا ہوگا صبر اور تقوی ہی سے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ 3۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس انتباہ کے ذریعے سے مسلمانوں کو اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی تلقین کی ہے اور بتایا ہے کہ ابتلاء او آزمائش سے صبر و استقامت کی عادت پیدا ہوتی ہے اخلاقی کمزوریوں کا علاج ہوتا ہے۔ درجات بلند ہوتے ہیں اس سے اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان امتیاز بھی ہو جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔