تشریح:
1۔ پہلے آیت میں یہ ذکر تھا کہ جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہوسکتے، اس میں معذور لوگوں کی وضاحت نہ تھی، پھر جب معذور لوگوں نے عذر پیش کیا تو مزید الفاظ نازل ہوئے جن سے معذور لوگوں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مدینے میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:باوجود اس کے کہ وہ مدینے میں ہیں؟آپ نے فرمایا:"ہاں،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عذر نےروک لیا ہے۔" گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔
2۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ آیت لکھوا رہے تھے جبکہ آخری حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ابن مکتوم ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا تو اس وقت آپ سامنے آگئے اور اپنا عذر پیش کیا کہ میں تو نابیناہوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4423)