تشریح:
1۔ اس آیت کی عملی تفسیر درج ذیل واقعے سے ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: حضرت سودہ ؓ کو محسوس ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھوں نے آپ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ مجھے طلاق نہ دیں بلکہ اپنے پاس ہی رکھیں اور میں اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ ﷺایساہی کیا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ گویا میاں بیوی جس شرط پر صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (النساء:128/4)
2۔ بہرحال اگر بیوی اپنی باری اور دیگر حقوق سے دستبردار ہو جائے تو وہ اس کے حقوق ختم ہوجائیں گے، چنانچہ ایک دوسری روایت میں مذید وضاحت ہے کہ عورت اپنے خاوند کی بے رخی کو دیکھ کرکہتی ہے: مجھے اپنے پاس ہی رکھو اور طلاق نہ دو، کسی اور سے شادی بھی کرلو، میرے نان ونفقہ سے بھی آپ بری الذمہ ہیں اورمیری باری کے موقع پر میرے ہاں شب باشی بھی نہ کریں۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3040) اس کے باوجود خاوند کو چاہیے کہ وہ کسی صورت میں بھی عدل و انصاف کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ واللہ اعلم۔