قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: تَيَمَّمُوا: تَعَمَّدُوا، {آمِّينَ} [المائدة: 2]: عَامِدِينَ، أَمَّمْتُ وَتَيَمَّمْتُ وَاحِدٌ " وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: (لَمَسْتُمْ) وَ {تَمَسُّوهُنَّ} [البقرة: 236] وَ {اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ} [النساء: 23]، " وَالإِفْضَاءُ: النِّكَاحُ "

4607. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَقَالُوا أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ فَقَالَ حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ قَالَتْ عَائِشَةُ فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي وَلَا يَمْنَعُنِي مِنْ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا الْعِقْدُ تَحْتَهُ.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

«تيمموا» یعنی «تعمدوا» اسی لیے آتا ہے یعنی قصد کرو۔ «آمين» یعنی «عامدين» قصد کرنے والے۔ «أممت» ‏‏‏‏ اور «وتيممت» ‏‏‏‏ ایک ہی معنی میں ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ «‏‏‏‏لمستم وتمسوهن واللاتي دخلتم بهن» ‏‏‏‏ اور «الإفضاء» سب کے معنی عورت سے ہمبستری کرنے کے ہیں۔

4607.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں نہ تو پانی کا کوئی چشمہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہی تھا۔ صحابہ کرام ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کی: آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کیا کر رکھا ہے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہیں ٹھہرا لیا ہے اور ہمیں بھی ٹھہرنے پر مجبور کر رکھا ہے، حالانکہ یہاں نہ تو پانی کا چشمہ ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر محو استراحت تھے۔ انہوں نے کہا: تم نے رسول اللہ ﷺ اور تمام لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے، حالانکہ یہاں کہیں پانی کا چشمہ نہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہی ہے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: حضرت ابوبکر ؓ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ تعالٰی کو منظور تھا مجھے سخت سست کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے۔ میں نے اس خیال سے کوئی حرکت نہ کی کہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے ہوئے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ صبح بیدار ہوئے تو وہاں پانی وغیرہ کا کوئی نشان تک نہ تھا، اس وقت اللہ تعالٰی نے آیت تیمم نازل کی تو حضرت اسید بن حضیر ؓ نے کہا: اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت تو نہیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ  ف‬رماتی ہیں کہ جب ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے سے مل گیا۔