تشریح:
1۔ ایک حدیث میں اس خطبے کا پس منظر بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی ناگوار بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: "ابھی ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئی تھیں ۔آج سے بڑھ کر میں نے کبھی خیر اور شر کونہیں دیکھا جن حقائق کو میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں معلوم ہو جائیں تو تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رؤوکرو۔" (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6119۔(2359))
2۔ بہرحال مذکورہ آیت کریمہ کثرت سے سوالات کرنے کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ سوالات استہزاء، امتحان، شرارت اور عناد پر مبنی ہوتے تھے بصورت دیگر امور دین کے متعلق سوالات کرنے کی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسے سوالات کرنا ضروری ہوتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر تمھیں علم نہیں ہے تو اہل ذکر سے پوچھا لیا کرو۔" (النحل:16۔43)