تشریح:
1۔ اس حدیث اور آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء ؑ کو غیب کا علم نہیں ہوتا، مگر اتنا ہی جنتا اللہ تعالیٰ انھیں بتا دے نیز انبیاء ؑ کے رخصت ہونے کے بعد انھیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھلا۔ مدینہ مکہ اور بحرین کے علاوہ باقی تمام جگہوں میں شور و غل اٹھا، یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا۔ اسود عنسی بھی نبوت کا دعویدار تھا جو رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تین دن پہلے جہنم واصل ہوا۔ کچھ لوگ اس کے معتقدہوئے تھے کچھ لوگ دور جاہلیت کی طرف پھر گئے کچھ اسلام پر رہے لیکن بعض واجبات کا انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ منکرین زکاۃ سے حضرت ابو بکر ؓ سال بھر جنگ کرتے ہے۔ کچھ مرتدین مارے گئے البتہ اکثر اسلام کی طرف واپس آگئے۔ غالباً انھی لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ "أصحابي" کے الفاظ کہیں گے۔
3۔ اس حدیث سے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت معلوم ہوتی ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سیدالانبیاء حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں کیونکہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کو لازم نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق "أصحابي" سے مراد جملہ اہل بدعت ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی بدعات و رسومات ہیں۔ ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ پہلے نرم گوشتہ رکھیں گے۔ پھر جب حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے تو ان سے اعلان بے زاری فرمائیں گے۔ أعاذنا اللہ منه أجمعین۔