تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی علامات تو بیان فرمائی ہیں لیکن قیامت کے واقع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ماں کے پیٹ میں مشینی ذرائع سے بچے کے نر مادہ ہونے کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہو لیکن وہ بچہ نیک ہے یا بد، ناقص ہے یا کامل، خوبصورت ہے یا بد صورت کالا ہے یا گورا ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و قرآئن سے اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ اندازے کبھی غلط نکلتے اور کبھی صحیح بھی ہو جاتے ہیں حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔
2۔ انسان کل کیا کرے گا؟ کسی کو آنے والے کل کے متعلق کوئی علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا؟ موت کا معاملہ بھی اسی طرح ہے۔ وہ گھر میں آئے گی یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں، اپنی خواہشات کی تکمیل کے بعد آئےگی یا تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی، اس کے متعلق اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں ہے۔ ان تمام باتوں کے متعلق وہ تفصیلی علم رکھتا ہے گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایک ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے، پھر اسی کے مطابق اس جہان میں واقعات ظاہر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس جہان کا خاتمہ ہو گا پھر روز آخرت قائم ہو گا۔ واللہ اعلم۔