تشریح:
1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس جو آدمی آیا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان آپس میں جنگ وقتال میں ہیں اور آپ کسی جنگ میں حصہ نہیں لیتے بلکہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ آپ کو ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا موقف یہ تھا کہ جو امور نظم ملک سے متعلق ہیں ان میں جنگ وقتال درست نہیں بلکہ ایسے حالات میں علیحدگی اختیار کرنے میں عافیت ہے۔
2۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی خارجی تھا کیونکہ خوارج کو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے عداوت تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے دونوں حضرات کی خوبیاں ذکر کر کے اس شخص کا رد کیا اور بتایا کہ حضرت عثمان ؓ کے جنگ اُحد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ لیکن تم لوگ انھیں معاف نہیں کرتے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا ہے۔" (آل عمران:155/3) حضرت علی ؓ کی رسول اللہ ﷺ سے نسبی قرابت اور قرابت محل (رہائش) دونوں کو بیان فرمایا یعنی وہ ہر اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے قریبی ہیں لیکن تمھیں یہ قرب گوارا نہیں ہے۔