قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4650. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا حَيْوَةُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَجُلًا جَاءَهُ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا إِلَى آخِرِ الْآيَةِ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ لَا تُقَاتِلَ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي أَغْتَرُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ وَلَا أُقَاتِلُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَغْتَرَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا إِلَى آخِرِهَا قَالَ فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ قَالَ ابْنُ عُمَرَ قَدْ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ كَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا يَقْتُلُونَهُ وَإِمَّا يُوثِقُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لَا يُوَافِقُهُ فِيمَا يُرِيدُ قَالَ فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ مَا قَوْلِي فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ أَمَّا عُثْمَانُ فَكَانَ اللَّهُ قَدْ عَفَا عَنْهُ فَكَرِهْتُمْ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ وَأَمَّا عَلِيٌّ فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ وَهَذِهِ ابْنَتُهُ أَوْ بِنْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ

مترجم:

4650.

حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدالرحمٰن! کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں کیا فرمایا ہے؟ "اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں (تو ان میں مصالحت کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو تم سب اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے)۔" ان حالات میں آپ کو لڑائی کرنے سے کس نے روکا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ’’اے میرے بھتیجے! میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ اس آیت کی تاویل کروں جو اللہ تعالٰی نے فرمایا: ’’اور جو کوئی کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے (اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ پھر اس آدمی نے کہا: اچھا اس آیت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے: "ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔" حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: ہم یہ کام رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کر چکے ہیں جبکہ اس وقت اہل اسلام تھوڑے تھے اور مسلمانوں کو اسلام اختیار کرنے پر اذیت دی جاتی تھی۔ وہ لوگ اہل ایمان کو قتل کر دیتے تھے یا رسیوں میں جکڑ دیتے تھے، یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا اورفتنوں کا خاتمہ ہو گیا۔ جب اس آدمی نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس کے ہمنوا نہیں ہو رہے تو کہنے لگا: اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ کے متعلق کیا خیال ہے؟ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: حضرت علی اور حضرت عثمان ؓ کے متعلق میرا کیا خیال ہو سکتا ہے؟ حضرت عثمان ؓ کو تو اللہ تعالٰی نے معاف کر دیا ہے مگر تم لوگوں کو یہ معافی پسند نہیں ہے اور حضرت علی ؓ تو رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد اور آپ کے داماد ہیں اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا یہ ان کی لخت جگر (کا گھر) ہے جسے تم دیکھ رہے ہو۔