تشریح:
1۔ ایک دوسری روایت میں اس واقعے کی پوری تفصیل ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: میں شام میں تھا کہ اس آیت کے متعلق میری حضرت امیرمعاویہ ؓ سے کچھ تکرار ہوگئی۔ انھوں نے حضرت عثمان ؓ کو میرے متعلق شکایت کی تو انھوں نے مجھے مدینہ طیبہ بلالیا۔ میں مدینہ طیبہ آگیا تو میرے پاس بہت سے لوگ جمع ہوگئے، گویا انھوں نے مجھے اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ میں نے حضرت عثمان ؓ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو انھوں نےفرمایا: تم چاہوتو یہیں الگ ہوکررہو۔ میں نے یہاں رہنے کو پسند کیا۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1406)
2۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کا موقف تھا کہ یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں بشرط یہ کہ وہ زکاۃ ادا کرتے ہوں بلکہ یہ اہل کتاب کے متعلق ہے جبکہ حضرت ابوزر ؓ کہتے تھے کہ یہ آیت عام ہے ہمیں اور اہل کتاب دونوں کو شامل ہے۔ جمہور اہل علم کاموقف ہے کہ اگرمال سے زکاۃ ادا کردی جائے تو وہ خزانہ نہیں رہتا جس پر سخت وعید آئی ہے۔ واللہ اعلم۔