تشریح:
1۔ غزوہ تبوک کے موقع پر قحط سالی تھی، ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں، سفر بھی دوردراز کا تھا مقابلہ بھی اس دور کی انتہائی مضبوط اور زبردست طاقت رومی حکومت سے تھا، اسلحہ اور سواریوں کی بھی قلت تھی، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجے میں حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمان ؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ خوش ہوگئے۔ سیدناعمرؓ اپنے گھر کا آدھا سامان بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے آئے۔ الغرض مال دار اورمزدور پیشہ لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق چندہ دیا۔ لیکن منافقین کی طعنہ زنی سے کوئی بھی محفوظ نہ رہا۔
2۔ حضرت ابومسعودانصاری ؓ نے حدیث کے آخر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ میں نے بھی اس وقت محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا تھا اور آج اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ لاکھوں میں کھیل رہا ہوں۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں اس سے مقصود یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں قلت مال کے باوجود لوگ محنت مزدوری کرکے صدقہ کیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر مال وولت کے دروازے کھول دیے ہیں۔ بڑی آسانی کے ساتھ صدقہ خیرات کرتے ہیں۔ انھیں تنگی کا خوف دامن گیر نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:422/8) واللہ اعلم۔