تشریح:
1۔ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا لعاب دہن اس کے منہ کولگایا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ( صحیح البخاری الجنائز حدیث 1350۔ ) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی عدم مغفرت کے متعلق صاف صاف اعلان فرمادیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہواسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور اس کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔
2۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی موت زی قعدہ 9 ہجری غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد واقع ہوئی۔ یہ بدبخت غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوا تھا۔ قرآن کریم کی یہ آیت: ’’اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ جاتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کچھ نہ کرتے۔‘‘ (التوبة:84:9) عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کے متعلق نازل ہوئی۔
3۔ قارئین کرام کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ بھی سورہ توبہ کی آیت:80 کا وہی مفہوم سمجھتے تھے جو حضرت عمر ؓ نے سمجھا تھا بلکہ آپ کو یقین تھا کہ ہمارے کسی عمل سے اس منافق کی مغفرت نہیں ہوگی مگرآیت کے ظاہر سے آپ کو اختیاردیاگیا تھا اور کسی دوسری آیت سے اس کی ممانعت نہیں اتری تھی، دوسری طرف ایک منافق کے احسان سے اس دنیا میں نجات حاصل کرنا بھی مقصود تھا اور ایک مخلص ساتھی اس کے بیٹے کی دلجوئی بھی پیش نظر تھی، اس کے علاوہ اس معاملے میں دوسرے کافروں کے اسلام کے قریب ہونے کی توقع تھی، اس لیے ان مصلحتوں کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اس منافق کی نماز جنازہ پڑھانے کو ترجیح دی اور حضر ت عمر ؓ نے یہ خیال کیا کہ جب آیت:80 سے یہ ثابت ہوگیا کہ مغفرت نہیں ہوگی تو اس کے لیے نماز جنازہ پڑھ کر جائے مغفرت کرنا ایک بے فائدہ اور بے کار فعل ہے جو شان نبوت کے خلاف ہے، اسی کو آپ نے ممانعت سے تعبیر کیا، لیکن رسول اللہ ﷺ اگرچہ اس فعل کو فی نفسہ مفید نہ سمجھتے تھے مگردوسروں کے اسلام لانے کا فائدہ پیش نظر تھا، اس لیے آپ کے نزدیک یہ فعل بے فائدہ نہ تھا۔
4۔ اس توجیہ سے نہ تورسول اللہ ﷺ کے عمل پر کوئی اشکال رہتاہے اور نہ فاروقِ اعظم ؓ کے قول پر ہی کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوکر دعائے مغفرت ہی کی ہے۔ (فتح الباري:427/8)