تشریح:
1۔امام بخاری ؒ نے اس طرح کا ایک عنوان کتاب التوحید میں بھی قائم کیا ہے۔ وہاں مقصود عرش باری تعالیٰ کا اثبات اور اللہ تعالیٰ کے اس پر مستوی ہونے کو ثابت کرنا ہے، نیز ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش ایک مخلوق اور اس کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس مقام پر امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت بھی اس کا عرش پانی پر تھا۔ یہ پانی کہاں تھا؟ کیا یہ پانی وہی معروف ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں یا کوئی اور مائع قسم کا مادہ تھا؟ یہ ایسے سوالات ہیں جوہماری سمجھ سے بالاترہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں ہیں، البتہ یہ بات یقینی ہے کہ زمین وآسمان کی تخلیق سے پہلے اللہ کا عرش پانی پر تھا۔
2۔عرش اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے، نیز عربی زبان میں گھر کی چھت کے لیے بھی عرش استعمال ہوا ہے، اس اعتبار سے اللہ کا عرش اپنے اندر وہ معانی رکھتا ہے: الف۔ وہ اللہ ذوالجلال کامحل استواء ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ ب۔ وہ تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔ اس کی مکمل بحث کتاب التوحید میں ذکر ہوگی۔ باذن اللہ تعالیٰ۔