تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سوال کیا تو آپ جمار کھارہے تھے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2209) حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے جمار کھانے کی وجہ سے میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ (فتح الباري:193/1)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین صفات بیان کیں۔ راوی نے انھیں تین دفعہ لا۔ ولا۔ ولا کہہ کربیان کردیا یعنی نہ تواس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا سایہ ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا نفع ختم ہوتا ہے کھجور کا کوئی جزبےکار نہیں جاتااس کا پھل نہایت شریں لذیز اور مفید ہے۔ اس کا پھل کچا اور پختہ ہر طرح کھایا جاتا ہے پھر پختہ ہونے کے بعد اسے خشک کر کے سارا سال استعمال کیا جاتا ہے اس کی گٹھلیاں چوپایوں کی خوراک ہے، انھیں پیس کر اطباء حضرات مختلف ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے موسم خزاں میں بھی اس کے پتے نہیں کرتے اس کے تنے مکانوں میں ستونوں اور شہتیر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اس کے پتوں سے چٹائیاں ٹوکرے اور پنکھے بنائے جاتے ہیں اس کی چھال تکیوں اور گدوں میں بھری جاتی ہے۔
3۔ اسے بندہ مسلم سے تشبیہ دی ہے کہ مسلم کامل کا ہر کام نفع مند اور ثمرآزر ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے درختوں یں سے ایک د رخت ہے جس کی برکات بندہ مسلم کی برکات کی طرح ہیں۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث:4454) اللہ نے بھی آیت کریمہ میں شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان کی ہیں۔ ©وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔ اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ میٹھے اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔ ©اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ برداشت کر سکتی ہیں۔ ©اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہٰذا اس سے جو پھل حاصل ہو گا ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک ہو گا۔ ©یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔ واللہ اعلم۔