تشریح:
1۔ پہلی حدیث مختصر طور پر بیان ہوئی ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ لوگ پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے۔ ان کے بعد پھر باری باری دیگر انبیاء علیہ السلام سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کر کے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں گے تو آپ لوگوں کی التجا کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔ مقام شفاعت ہی کو مقام محمود کہا گیا ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مقام محمود کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس سے مراد مقام شفاعت ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3137)
2۔ اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد و ستائش جاری ہوجائے گی، جیساکہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے۔ آپ چلیں گے اورجنت کے دروازے کا حلقہ پکڑ لیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر فائز کرے گا۔ اہل محشر سب کےسب آپ کی تعریف کرنے لگیں گے۔ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1475)