قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي البَحْرِ سَرَبًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: مَذْهَبًا، يَسْرُبُ يَسْلُكُ»، وَمِنْهُ: {وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ} [الرعد: 10]

4726. حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ إِذْ قَالَ سَلُونِي قُلْتُ أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَمَّا عَمْرٌو فَقَالَ لِي قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى فَقَالَ لِي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتْ الْعُيُونُ وَرَقَّتْ الْقُلُوبُ وَلَّى فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ لَا فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ قِيلَ بَلَى قَالَ أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ قَالَ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ قَالَ أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ فَقَالَ لِي عَمْرٌو قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ وَقَالَ لِي يَعْلَى قَالَ خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ فَقَالَ لِفَتَاهُ لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ قَالَ مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ فَقَالَ فَتَاهُ لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ قَالَ لِي عَمْرٌو هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا شَأْنُكَ قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ فَقَالُوا عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ قَالَ قُلْنَا لِسَعِيدٍ خَضِرٌ قَالَ نَعَمْ لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا قَالَ مُوسَى أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ مُجَاهِدٌ مُنْكَرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا كَانَتْ الْأُولَى نِسْيَانًا وَالْوُسْطَى شَرْطًا وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ يَعْلَى قَالَ سَعِيدٌ وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ فَاسْتَقَامَ قَالَ يَعْلَى حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا قَالَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ فَاسْتَقَامَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ سَعِيدٌ أَجْرًا نَأْكُلُهُ وَكَانَ وَرَاءَهُمْ وَكَانَ أَمَامَهُمْ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا فَانْتَفَعُوا بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً لِقَوْلِهِ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ فَقَالَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ «سربا» راستہ «يسرب» ( «به فتحتين») یعنی مذہب طریق، اسی سے ہے «سارب بالنهار» یعنی دن میں راستہ چلنے والا۔

4726.

حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے گھر ان کی خدمت میں حاضر تھے، انہوں نے فرمایا: مجھ سے کوئی سوال کرو۔ میں نے عرض کی: ابو عباس! اللہ تعالٰی آپ پر مجھے قربان کرے! کوفہ میں ایک آدمی واعظ ہے، جسے نوف کہا جاتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ حضرت خضر ؑ سے ملاقات کرنے والے موسٰی بنی اسرائیل والے موسٰی نہیں تھے۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے کیونکہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسٰی رسول اللہ ﷺ نے ایک دن لوگوں کو ایسا وعظ کیا کہ لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل پسیج گئے۔ جب آپ واپس جانے لگے تو ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی۔ ان سے کہا گیا: کیوں نہیں؟ بلکہ آپ سے بڑھ کر ایک عالم ہے۔ حضرت موسٰی ؑ نے عرض کی: اے میرے رب! وہ کہاں ہے؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا: دو دریاؤں کے سنگم پر۔ موسٰی ؑ نے عرض کی: اے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما دے جس کے ذریعے سے میں اسے معلوم کر سکوں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: جہاں تم سے مچھلی جدا ہو جائے، یعنی ایک مردہ مچھلی لو، جہاں اس مچھلی میں جان پڑ جائے وہ اس جگہ ہوں گے، چنانچہ موسٰی ؑ نے ایک مچھلی ساتھ لے لی اور اسے اپنی زنبیل میں رکھ لیا۔ آپ نے اپنے خادم (یوشع) سے فرمایا: میں تمہیں بس اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے مطلع کرنا۔ خادم نے کہا: یہ کون سی بڑی تکلیف ہے، اللہ تعالٰی کے ارشاد: ﴿وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَىٰهُ﴾ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے ۔۔ یہ خادم رفیق سفر حضرت یوشع بن نون تھے۔ سعید بن جبیر نے اس کا نام نہیں لیا ۔۔ پھر موسٰی ؑ ایک چٹان کے سائے میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈک تھی۔ اس وقت مچھلی نے حرکت کی اور دریا میں کود گئی جبکہ حضرت موسٰی ؑ اس وقت سو رہے تھے۔ خادم نے کہا: اس وقت آپ کو جگانا مناسب نہیں لیکن جب موسٰی ؑ بیدار ہوئے تو وہ انہیں مچھلی کا حال کہنا بھول گئے۔ اس دوران میں مچھلی حرکت کر کے دریا میں کود گئی تھی۔ اللہ تعالٰی نے مچھلی کے کودنے کی جگہ پانی کا بہاؤ روک دیا اور مچھلی کا نشان اس پتھر پر بن گیا جس کے اوپر سے گزر کر گئی تھی ۔۔ عمرو بن دینار نے مجھ (ابن جریج) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا۔ اور انہوں نے دونوں انگوٹھوں اور شہادت کی انگلیوں کو جوڑ کر ایک حلقے کی طرح پتھر پر پڑے ہوئے نشان کو نمایاں کیا ۔۔ (بیدار ہونے کے بعد حضرت موسٰی ؑ باقی دن اور باقی رات چلتے رہے۔) آخر کہنے لگے: "ہمیں اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے۔" ان کے خادم نے کہا: اللہ تعالٰی نے آپ کی تھکن کو دور کر دیا ہے ۔۔ یہ الفاظ سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہیں ۔۔ اس کے بعد موسیٰ ؑ اور ان کے خادم دونوں واپس لوٹے اور وہاں حضرت خضر ؑ سے ملاقات ہو گئی جو دریا کے درمیان میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے۔ حضرت سعید بن جبیر نے اپنی روایت میں یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سر کے تلے تھا۔ حضرت موسٰی ؑ نے وہاں پہنچ کر سلام کیا تو حضرت خضر ؑ نے اپنے چہرے سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا: میری اس سرزمین میں سلام کا رواج کہاں سے آ گیا؟ آپ کون ہیں؟ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: میں موسٰی ہوں۔ انہوں نے پوچھا: بنی اسرائیل کے موسٰی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ موسٰی ؑ نے فرمایا: میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالٰی نے آپ کو دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا: کیا آپ کو یہ کافی نہیں کہ تورات آپ کے پاس ہے اور آپ کے پاس وحی آتی ہے؟ اے موسٰی! میرے پاس علم ہے، آپ کے لیے اس کو پورا جاننا مناسب نہیں اور آپ کے پاس علم ہے، میرے لیے مناسب نہیں کہ میں وہ سارا سیکھوں۔ اس دوران میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا یا پانی لیا تو حضرت خضر ؑ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے۔ بہرحال کشتی پر چڑھتے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کو دوسرے کنارے پر لے جا کر چھوڑ آتی تھیں۔ ملاحوں نے حضرت خضر ؑ کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ تعالٰی کے نیک بندے ہیں۔ ہم نے سعید بن جبیر سے کہا: انہوں نے حضرت خضر ؑ کو پہچانا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، کشتی والوں نے کہا: ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے لیکن حضرت خضر ؑ نے کشتی کا تختہ توڑ دیا اور اس کی جگہ میخیں گاڑ دیں۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: آپ نے کشتی کا تختہ اس لیے نکالا ہے تاکہ کشتی میں سوار لوگوں کو غرق کر دیں۔ بلاشبہ آپ نے بڑا ناگوار کام کیا ہے۔" مجاہد نے کہا: إِمْرًا کے معنی ہیں: منكرا۔ یہ سن کر حضرت خضر ؑ نے فرمایا: "میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔" موسٰی کا پہلا سوال بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط اور تیسرا قصدا بطور اعتراض تھا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: "جو میں بھول گیا ہوں اس کے بارے میں مجھ سے مؤاخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھے تنگی میں نہ ڈالیں۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو (حضرت خضر ؑ نے) اسے قتل کر دیا۔" حضرت سعید بن جبیر نے اس کی تفصیل بیان کی کہ حضرت خضر ؑ کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے۔ انہوں نے ان بچوں میں سے ایک بچے کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: "آپ نے بلاوجہ ایک بے گناہ بچے کو قتل کر دیا" حالانکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ اس مقام پر لفظ زَكِيَّةًۢ کو زاكية پڑھا کرتے تھے۔ اس کے معنی مسلمان کے ہیں جیسا کہ غُلَـٰمًا زَكِيًّا کو نفس زکیہ کہا جاتا ہے۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی "جو بس گرنے ہی والی تھی۔ خضر (ؑ) نے اسے درست کر دیا۔" حضرت سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا "اس طرح" یعنی حضرت خضر ؑ نے دیوار پر ہاتھ پھیر کر اسے ٹھیک کر دیا۔ حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا: "اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے۔" سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے وَكَانَ ﴿وَرَآءَهُم مَّلِكٌ﴾ کو وكان امامهم ۔۔۔ پڑھا ہے، یعنی ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔ سعید بن جبیر کے علاوہ دوسروں کی روایت میں اس بادشاہ کا نام ہدد بن بدد ہے اور جس بچے کو حضرت خضر ؑ نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ حيسور بیان کرتے ہیں۔ ’’وہ بادشاہ ہر (نئی) کشتی کو زبردستی چھین لیا کرتا تھا‘‘ اس لیے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے۔ پھر جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے۔ بعض نے کہا: انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ پگھلا کر جوڑ لیا تھا اور کچھ کہتے ہیں کہ تارکول سے سوراخ بند کر لیا تھا۔ (اور جس بچے کو قتل کر دیا تھا تو) "اس کے والدین مومن تھے" جبکہ بچہ کافر تھا، اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ کہیں وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کر دے، اس طرح کہ وہ لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر اس کے دین کی پیروی کر لیں گے "اس لیے ہم نے یہ ارادہ کیا کہ ان کا رب اس سے بہتر بچہ ان کو عنایت کر دے جو پاکباز (اور صلہ رحمی کرنے والا ہو)۔ (یہ جواب ہے اس کا کہ) "تو نے ایک بے قصور جان کو قتل کر دیا۔" وَأَقْرَبَ رُحْمًا کے معنی ہیں کہ اس کے والدین اس بچے پر جو اب اللہ انہیں دے گا پہلے بچے سے زیادہ مہربان ہوں گے جسے حضرت خضر ؑ نے قتل کر دیا تھا۔" حضرت سعید بن جبیر نے کہا کہ اس کے والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی۔ داود بن عاصم، کئی ایک راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی۔