تشریح:
1۔ اس واقعے سے گمراہ صوفیوں نے یہ مسئلہ کشیدکیا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام مسند نبوت پر فائز نہیں تھے بلکہ انھیں صرف ولایت کادرجہ حاصل تھا اوراللہ کا ولی فہم وبصیرت میں منصب نبوت سے کہیں اونچے درجے پر فائز ہوتا ہے اور پھر بطور دلیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نبی ہونے کے باوجود اللہ کے ولی حضرت خضر علیہ السلام سے چند باتیں سیکھنے کے لیے تشریف لے گئے اور عملی طور پر ان کی شاگردی اختیار کی۔ اس فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک شاعر کہتا ہے: ''مَقَام النُّبَّوةِ فِي بَرزَخِ…فُويق الرسول ودُون الوَلِي---" مقام نبوت برزخ کی طرف ایک درمیانہ درجہ ہے جو رسالت سے تھوڑا سا اوپر اورولایت سے نیچے ہے’’یعنی ان کے ہاں مقام ولایت نبوت ورسالت سے اونچاہے۔‘‘ مصنف عقیدہ طحاویہ ان کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم کسی ولی کو کسی نبی سے افضل نہیں سمجھتے اور تمام انبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے تمام اولیاء سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ (شرح العقیدة الطحاویة، ص:493)
2۔ اکثراہل علم کا رجحان ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام منصب نبوت پر فائز تھے، چنانچہ علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جمہور اہل علم کے ہاں حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے پھر کوئی بھی نبی اپنے سے کم تردرجہ سے علم حاصل نہیں کرتا۔ (المفھم:209/6) ہمارے نزدیک بھی حضرت خضر علیہ السلام کی عظیم شخصیت منصب نبوت پر فائز تھی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں شرف رسالت سے نوازاتھا جیسا کہ درج ذیل دلائل سے معلوم ہوتاہے: ©۔ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت سے نوازا اور اپنے پاس سے خاص علم دیا۔‘‘ (الکهف 65:18) اکثر مفسرین نے آیت میں رحمت اور علم سے مراد نبوت لی ہے، یعنی اسے ہم نے اپنی طرف سے نبوت عطا کی تھی۔ ©۔ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق اللہ کا فرمان ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’’میں نے اپنی رائے سے کوئی کام نہیں کیا۔‘‘ (الکهف 82:18) اس کی تفسیر میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اے موسیٰ علیہ السلام! جو کچھ میں نے کیا وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیاتھا۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح وحی الٰہی کے پابند تھے۔ اتنے اہم کام اللہ کی وحی کےبغیر نہیں کرسکتے تھے۔ یہ نبی کا منصب ہے جو وحی الٰہی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کوچند ایسی باتوں پر مطلع کیا گیاتھا جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل تھیں، اللہ تعالیٰ اس قسم کی غائبانہ باتوں پر صرف اپنے انبیاء علیہ السلام ہی کو آگاہ فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ غیب دان ہے اور اس طرح کے غیبی امور پر اپنے رسولوں کے علاوہ کسی اور کو مطلع نہیں کرتا۔‘‘ (الجن:26:72۔27) ©۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے وحی کی بنا پر سرانجام دیا ہے، بصورت دیگرحضرت موسیٰ علیہ السلام اس قسم کے بظاہر خلاف عادت کام دیکھ کر خاموش نہ رہتے، اس قسم کے اقدامات نبی کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہیں، خواہ وہ ولایت کے آخری درجے پر ہی فائز کیوں نہ ہو۔ ©۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ علیہ السلام! وہ میرا بندہ تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:122) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اس سے اس کی نبوت کا ثبوت ملتاہے بلکہ ان کے نبی مرسل ہونے کا بھی پتہ چلتاہے۔ (فتح الباري:290/1)
3۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک رسالہ"الزھر النضر في أخبار الخضر" لکھا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام کےان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبی تھے البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا نھیں نبوت کے ساتھ وعظ ارشاد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی یا نہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور وہب بن منبہ کا رجحان ہے کہ وہ نبی تو تھے لیکن کسی قوم کی طرف نہیں بھیجے گئے تھے جبکہ دوسرے اہل علم کا مؤقف ہے کہ آپ کو باقاعدہ ایک قوم کی طرف بھیجا گیا تھا۔ اور انھوں نے ان کی دعوت کو قبول بھی کر لیا تھا۔ ابوالحسن رمانی اور ابن جوزی نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔ امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی حضرت خضر علیہ السلام نبی مرسل تھے۔ واللہ أعلم۔
4۔ بہرحال حضرت خضر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوت پر فائز تھے۔ انھیں پہلے ولی قرار دینا پھر ولی کو نبی سے اونچا مرتبہ دینا شریعت کے خلاف ہے اور عقل بھی اس کی تائید نہیں کرتی۔