تشریح:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی اپنوں اور بیگانوں کی طرف سے تکلیفوں اور پریشانیوں میں گزری، آخر ایک دن سوچا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم اس عالم رنگ وبو میں نہ آتے تو شاید ان ذہنی کوفتوں سے دوچار نہ ہوتے پھر اللہ تعالیٰ سے حضرت آدم سے ملاقات کا سوال کردیا تاکہ انھیں اپنی عرض داشت پیش کرکے اپنا غم ہلکا کرلوں جس کی تفصیل درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی: اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام دکھلا، جنھوں نے ہمیں اور ا پنے آپ کو بھی جنت سے نکال دیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کرا دی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ ہاں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: آپ ہی وہ ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے ا پنی روح پھونکی تھی اور تمام چیزوں کے نام تعلیم کیے تھے اور تمام فرشتوں کو حکم دیا توانھوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: آپ کو کس چیز نے آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور اپنے آپ کو جنت سے نکال باہر کیا؟ حضرت آدم علیہ السلام نے ان سے فرمایا: تم کون؟ انھوں نے کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں۔ فرمایا: تم ہی بنی اسرائیل کے وہ نبی ہو جس سے اللہ تعالیٰ نے پر پردہ کلام فرمایا تھا اور اپنے اور تمہارے درمیان اپنی مخلوق میں سے کسی کو واسطہ نہیں بنایا تھا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں۔حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: کیاتم نے نہیں پایا کہ یہ سب کچھ میرے پیدا کیے جانے سے پہلے ہی کتاب اللہ میں تھا؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: کیوں نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: پھر تم مجھے کس چیز پر ملامت کرتے ہو، حالانکہ وہ مجھ سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلے میں تھی؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت آدم علیہ السلام سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر دلیل میں غالب آگئے۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث:4702)
2۔ "تقدیر" یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے، کہیں بھی اس سے زرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہوسکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا، لہذا انسانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور عذر اور بہانہ پیش کریں کیونکہ ہر ایک کوصحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ لیکن ماضی کے حقائق میں تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس تقدیر کو بطور عذر پیش کیا تھا۔