تشریح:
تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کرنا درست نہیں لیکن حضرت آدم علیہ السلام نے تقدیر کو بطور عذر پیش کیا۔دراصل تقدیر کا بہانہ بنانے کی دوقسمیں ہیں: ایک یہ کہ نافرمانی اور گناہوں پر جراءت کرنے کے لیے آدمی تقدیر کا حوالہ دے کر اس مصیبت اور گناہ میں میرا کوئی قصور نہیں تو یہ تقدیرمیں لکھا تھا۔ بلاشبہ اس طرح کا عذر جائز نہیں۔ دوسری قسم یہ کہ انسان نے گناہ سے توبہ کرلی، لیکن اس کے باوجود دل مطمئن نہیں تو اپنے دل کی تسلی کے لیے ایسے موقع پر تقدیر کو بطور بہانہ پیش کرناجائز ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی پر توبہ کرلی تھی لیکن اپنے دل کی تسلی کے لیے اعتذار بالقدر کیا ہے، پھر اس بحث میں حضرت آدم علیہ السلام کے غالب ہونے کا سبب یہ تھا کہ ان کی نظر ازلی تقدیر پر تھی کہ جبکہ موسیٰ علیہ السلام کی نظر ظاہری کسب پر تھی جو تقدیر ازلی کے تابع ہے، اس لیے حضرت آدم علیہ السلام کو غلبہ حاصل ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ واللہ اعلم۔