Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The doors and locks of the Kabah and the mosques)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبدالملک ابن جریج کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اے عبدالملک! اگر تم ابن عباس ؓ کی مساجد اور ان کے دروازوں کو دیکھتے۔توتعجب کرتے، وہ نہایت مضبوط پائیدار تھے اوروہ مساجد بہت ہی صاف ستھری ہوا کرتی تھیں۔
474.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مکہ تشریف لائے تو آپ نے (چابی بردار) حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا، انھوں نے بیت اللہ کا دروازہ کھولا۔ پھر نبی ﷺ، حضرت بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنھم اندر گئے۔ بعد ازیں دروازہ بند کر لیا گیا۔ آپ وہاں تھوڑی دیر رہے، پھر سب باہر نکلے، خود ابن عمر ؓ نے کہا: میں جلد اٹھا اور حضرت بلال ؓ سے جا کر پوچھا تو انھوں نے بتایا: آپ ﷺ نے کعبے کے اندر نماز پڑھی ہے۔ میں نے پوچھا: کس مقام پر؟ تو انھوں نے کہا: دونوں ستونوں کے درمیان۔ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں: یہ بات پوچھنے سے رہ گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟
تشریح:
1۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبے کے چابی برادر حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا ان سے چابی طلب کی اور خانہ کعبہ کھول کر اندرداخل ہوئے وہاں نماز پڑھی، ہجوم کے پیش نظر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ باب کے دو اجزاء ثابت ہوگئے کہ خانہ کعبہ میں دروازہ بھی تھا اور اسے بوقت ضرورت بند بھی کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے دس خاندانوں کے درمیان عزت و شرافت کے کام تقسیم تھے جن میں پانی پلانے کی خدمت بنو ہاشم سے متعلق تھی اور بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی تھی اور اس کی نگرانی بھی ان کے سپرد تھی۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی عبدالدار کی اولاد سے تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے چابی طلب کی تو انھوں نے اسے پیش کردیا خطبہ دیتے وقت چابی آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دی جائے تاکہ سقایہ زمزم کے ساتھ کلیہ برداری کا شرف بھی حاصل ہو جائے، لیکن آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے آل ابی طلحہ! یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھارے پاس رہے گی، ظالم اور غاصب کے علاوہ اسے تم سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔‘‘ 2(المعجم الکبیر للطبراني:11/120۔ فیه عبد اللہ بن مؤمل قال ابن حجر ضعیف الحدیث) ۔اس روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ سے یہ بات نسیان کا شکار ہو گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟ جبکہ حدیث نمبر397۔میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے دورکعت پڑھی تھیں ابن حجر ؒ نے اس کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ حضرت بلال ؓ نے اشارے سے بتایا تھا عبد اللہ بن عمر ؓ نطق سے وضاحت کرنا بھول گئے تھے۔ ( فتح الباري:648/1)واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
464
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
468
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
468
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
468
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس بات سے منع کرے کہ وہاں اللہ کا نام لیا جائے۔"( البقرۃ:2/114۔)اس آیت کا تقاضا ہے کہ مساجد کو ہمہ وقت کھلا رہنا چاہیے جبکہ انتظامی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ نمازوں کے علاوہ دیگر اوقات میں انھیں بند کردیا جائے، بصورت دیگر مسجد کا سامان محفوظ نہیں رہے گا اور نہ اس کی حرمت ہی باقی رہے گی کیونکہ کھلے دروازے سے انسان اور غیر انسان سب داخل ہو سکیں گے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں ثابت کیا ہے کہ مسجدوں میں دروازہ لگانا اور نمازوں کے علاوہ دیگر اوقات میں انھیں بند کردینا دونوں جائز ہیں اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل پیش کیا ہے انھوں نے جو مساجد بنوائی تھیں ان میں دروازےتھے جب دروازے لگے تھے تو انھیں بوقت ضرورت بند بھی کیا جاتا ہو گا وگرنہ ان کے لگانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبدالملک ابن جریج کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اے عبدالملک! اگر تم ابن عباس ؓ کی مساجد اور ان کے دروازوں کو دیکھتے۔توتعجب کرتے، وہ نہایت مضبوط پائیدار تھے اوروہ مساجد بہت ہی صاف ستھری ہوا کرتی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مکہ تشریف لائے تو آپ نے (چابی بردار) حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا، انھوں نے بیت اللہ کا دروازہ کھولا۔ پھر نبی ﷺ، حضرت بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنھم اندر گئے۔ بعد ازیں دروازہ بند کر لیا گیا۔ آپ وہاں تھوڑی دیر رہے، پھر سب باہر نکلے، خود ابن عمر ؓ نے کہا: میں جلد اٹھا اور حضرت بلال ؓ سے جا کر پوچھا تو انھوں نے بتایا: آپ ﷺ نے کعبے کے اندر نماز پڑھی ہے۔ میں نے پوچھا: کس مقام پر؟ تو انھوں نے کہا: دونوں ستونوں کے درمیان۔ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں: یہ بات پوچھنے سے رہ گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟
حدیث حاشیہ:
1۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبے کے چابی برادر حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا ان سے چابی طلب کی اور خانہ کعبہ کھول کر اندرداخل ہوئے وہاں نماز پڑھی، ہجوم کے پیش نظر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ باب کے دو اجزاء ثابت ہوگئے کہ خانہ کعبہ میں دروازہ بھی تھا اور اسے بوقت ضرورت بند بھی کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے دس خاندانوں کے درمیان عزت و شرافت کے کام تقسیم تھے جن میں پانی پلانے کی خدمت بنو ہاشم سے متعلق تھی اور بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی تھی اور اس کی نگرانی بھی ان کے سپرد تھی۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی عبدالدار کی اولاد سے تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے چابی طلب کی تو انھوں نے اسے پیش کردیا خطبہ دیتے وقت چابی آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دی جائے تاکہ سقایہ زمزم کے ساتھ کلیہ برداری کا شرف بھی حاصل ہو جائے، لیکن آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے آل ابی طلحہ! یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھارے پاس رہے گی، ظالم اور غاصب کے علاوہ اسے تم سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔‘‘ 2(المعجم الکبیر للطبراني:11/120۔ فیه عبد اللہ بن مؤمل قال ابن حجر ضعیف الحدیث) ۔اس روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ سے یہ بات نسیان کا شکار ہو گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟ جبکہ حدیث نمبر397۔میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے دورکعت پڑھی تھیں ابن حجر ؒ نے اس کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ حضرت بلال ؓ نے اشارے سے بتایا تھا عبد اللہ بن عمر ؓ نطق سے وضاحت کرنا بھول گئے تھے۔ ( فتح الباري:648/1)واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ابن جریج کا بیان ہے کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے کہا: اے عبدالملک! اگر تم ابن عباس ؓکی تعمیر کردہ مساجد اور ان کے دروازوں کو دیکھتے (تو تعجب کرتے)۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل اور قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی کے واسطہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ جب مکہ تشریف لائے ( اور مکہ فتح ہوا ) تو آپ نے عثمان بن طلحہ ؓ کو بلوایا۔ ( جو کعبہ کے متولی، چابی بردار تھے ) انھوں نے دروازہ کھولا تو نبی کریم ﷺ، بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ چاروں اندر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا اور وہاں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر باہر آئے۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر بلال سے پوچھا کہ ( آنحضرت ﷺ نے کعبہ کے اندر کیا کیا ) انھوں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ نے اندر نماز پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کس جگہ؟ کہا کہ دونوں ستونوں کے درمیان۔ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ یہ پوچھنا مجھے یاد نہ رہا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے کعبہ شریف میں داخل ہوکر کعبہ کا دروازہ اس لیے بند کرادیاتھا کہ اورلوگ اندر نہ آجائیں اور ہجوم کی شکل میں اصل مقصد عبادت فوت ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازہ میں زنجیر تھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ مساجد میں حفاظت کے لیے کواڑلگانا اوران میں کنڈی وقفل وغیرہ جائز ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): Ibn 'Umar (RA) said, "The Prophet (ﷺ) arrived at Makkah and sent for 'Uthman bin Talha. He opened the gate of the Ka’bah and the Prophet, Bilal (RA) , Usama bin Zaid and 'Uthman bin Talha entered the Ka’bah and then they closed its door (from inside). They stayed there for an hour, and then came out." Ibn 'Umar (RA) added, "I quickly went to Bilal (RA) and asked him (whether the Prophet (ﷺ) had prayed). Bilal (RA) replied, 'He prayed in it.' I asked, 'Where?' He replied, 'Between the two pillars.' "Ibn 'Umar (RA) added, "I forgot to ask how many Rakat he (the Prophet) had prayed in the Ka’bah."