تشریح:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ سو میں سے ایک جنت کے لیے اور ننانوے جہنم کے لیے الگ کردیے جائیں۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث:6529) ان مختلف روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہےکہ جب یاجوج وماجوج کو اس امت کے ساتھ ملایا جائے گا تو ہزار میں سے ایک جنتی اور باقی نوسونناوے جہنمی ہوں گے اور جب ان کے بغیر تقابل ہوگا تو سو میں سے ایک جنتی اور باقی جہنمی ہوں گے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں یاجوج وماجوج کا ذکر ہے اور اس میں سے ہزار میں سے ایک کے جنتی ہونے کا بیان ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یاجوج وماجوج کا ذکر نہیں اور اس میں ایک فی صد کے جنتی ہونے کا ذکر ہے، نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جنت میں دو تہائی ہوں گے۔‘‘ یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم ایک دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی۔ اس میں اسی صفیں اس امت محمدیہ کی اور باقی چالیس صفیں دوسری امتوں کی ہوں گی۔‘‘ (مسند أحمد:347/5) اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دوتہائی اہل جنت اس امت سے ہوں گے اور ایک تہائی دوسری امتوں سے لیے جائیں گے۔ (وفتح الباري:474/11)
2۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے چوتھائی حصے، پھر ایک تہائی، اس کے بعد نصف اورآخر میں دوتہائی کی اطلاع دی گئی ہو اوریہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مقدار مختلف اوقات اور مختلف مراحل کے اعتبار سے ہو: ابتدائی مرحلے میں امت مسلمہ کی تعداد ایک چوتھائی حصے اہل جنت کے برابر ہو پھر ایک زمانے کے بعد اہل جنت کی تعداد میں اضافہ ہوجائے تو ان کی تعداد ایک تہائی کے برابر ہو جائے گی تیسرے مرحلےمیں ایک تہائی سے بڑھ کر نصف ہو جائے گی اورآخر میں نصف سے بڑھ کر دوتہائی تک پہنچ جائے۔ اس سے امت محمدیہ کی فضیلت اور برتری بیان کرنا مقصود ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔