تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مختصر بیان کیا ہے۔ آئندہ اس واقعے سے متعلقہ تفصیلات بیان ہوں گی۔ امام بخاری ؒ نے کتاب الکفالة حدیث: 2297 اور کتاب المناقب حدیث: 3905 میں تفصیلات بیان کی ہیں ہم وہاں مفصل تشریح کریں گے، اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصود صرف یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے مکان کے سامنے عوامی مقام پر مسجد تعمیر کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر انکا رنہیں فرمایا، کیونکہ اس مسجد سے لوگوں کے آنے کا راستہ متاثر نہیں ہواتھا مشرکین کی عورتیں اور بچے وہاں سے گزرتے تھے۔ مشرکین کو بھی اس پر اعتراض نہ تھا۔ البتہ وہ اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہو گئے کہ مبادا ہماری عورتیں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے طرز عمل اور انداز قرآن خوانی سے مسحور و متاثر ہو جائیں ۔ اس کی تفاصیل آئندہ بیان ہوں گی، البتہ حضرت ابو بکر ؓ کے راستے میں مسجد بنانے اور رسول اللہ ﷺ کے انکار نہ کرنے سے یہ مسئلہ تو ثابت ہوا کہ پبلک مقامات پر مسجد بنائی جا سکتی ہے، بشرطیکہ راستہ متاثر نہ ہوتا ہو۔ 2۔ آج کل اس طرح کے تمام مقامات صوبائی یا مرکزی حکومت کی تحویل میں ہیں، لہٰذا ایسے مقامات پر مسجد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت وقت سے اس کی اجازت لی جائے بصورت دیگر حکومت کو ایسی مسجد منہدم کرنے کا پورا حق ہو گا، آج چونکہ فتن و محن کا دور ہے فرقہ ورایت کا بھوت ذہنوں پر سوار ہے لوگوں میں مروت ومسامحت باقی نہیں رہی، لہٰذا ایسے مقامات پر مسجد بنانے سے پہلے مقامی حکومت سے اس جگہ کے متعلق مالکانہ حقوق لینا ضروری ہیں تاکہ فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ رہے اور امن و سکون کے ساتھ وہاں اللہ کی عبادت کی جا سکے۔