تشریح:
1۔ دھواں سے مراد سورہ خان کی یہ آیت ہے:’’جب آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔‘‘ انشقاق قمر سے مراد یہ ہے:’’قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘ (القمر:1) روم کا ذکر سورہ روم میں ہے:﴿غُلِبَتْ الرُّوم﴾ یعنی ’’اہل روم مغلوب ہوگئے۔‘‘ (الروم :1،2) (بَطشَة) کا ذکر دخان میں ہے: ’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ کریں گے۔‘‘ (الدخان :16) (لِزَام) سے مراد یہ آیت ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ یہ پانچوں علامات قیامت گزر چکی ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ دھویں سے مراد وہ دھواں ہے جو قریش مکہ کو شدت بھوک کی وجہ سے آسمان پر نظر آتا تھا۔ شق القمر کا معجزہ بھی ہجرت سے پہلے رونما ہوچکا ہے۔ ﴿غُلِبَتْ الرُّوم﴾ کا ظہور بھی ہوچکا ہے۔ اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور (بَطشَة) سے مراد وہ سخت پکڑ ہے جو بدر کے دن کفارقریش کے قتل کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی، اور لزام سے مراد غزوہ بدر میں کفار کا قید و گرفتار ہونا ہے، جبکہ جمہور اہل علم کے نزدیک (بَطشَة) سے مراد کفار کو جہنم میں پکڑ کر ڈالنا ہے اور کفار مکہ نے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی اس لیے انھیں اس کی سزا لازمی بطور پر بھگتنا ہوگی، چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر کے موقع پر شکست کی صورت میں ملی اورآخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انھیں دوچار ہونا پڑے گا۔ واللہ اعلم۔