قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَولِِهِ:{لاَ تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: خُلُقُ الأَوَّلِينَ: دِينُ الأَوَّلِينَ، وَالفِطْرَةُ الإِسْلاَمُ "

4774. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ فَقَالَ يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ فَفَزِعْنَا فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَغَضِبَ فَجَلَسَ فَقَالَ مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ عَائِدُونَ أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الْآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى يَوْمَ بَدْرٍ وَ لِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَى سَيَغْلِبُونَ وَالرُّومُ قَدْ مَضَى

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 ‏‏‏‏  خلق الله سے اللہ کا دین مراد ہے۔ آیت «ان هذا الا خلق الاولین» میں «خلق» سے دین مراد ہے اور «فطرت» سے اسلام مراد ہے۔

4774.

حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جو منافقین کی قوت سماعت و بصارت کو ختم کر دے گا لیکن مومن پر اس کا اچر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سن کر بہت گھبرائے۔ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ (یہ سن کر) وہ بہت ناراض ہوئے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: جو شخص علم رکھتا ہو وہ تو بیان کرے اور جو علم نہیں رکھتا وہ کہے کہ اللہ بہتر جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی علم ہے کہ انسان اپنی لا علمی کا اعتراف کرے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ’’کہہ دیجیے! میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں ہی سے ہوں۔‘‘ اصل واقعہ یہ ہے کہ قریش نے جب اسلام لانے میں تاخیر کی تو نبی ﷺ نے ان کے خلاف بددعا فرمائی: ’’اے اللہ! ان پر حضرت یوسف ؑ کے دور والے قحط جیسا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔‘‘ پھر ایسا قحط پڑا کہ اس میں لوگ تباہ ہوئے اور کچھ مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوئے۔ اس دوران میں اگر کوئی آسمان اور زمین کے درمیان فضا میں دیکھتا تو اسے دھواں نظر آتا، پھر حضرت ابوسفیان ؓ آپ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے: اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے۔ اللہ تعالٰی سے ان کے لیے دعا فرمائیں۔ پھر عبداللہ بن مسعود ؓ نے یہ آیت پڑھی: ’’آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان واضھ دھواں لائے گا ۔۔ اپنی اسی حالت میں آ جاؤ گے۔‘‘ کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا جب وہ آ جائے گا؟ چنانچہ قحط کے ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے۔ اللہ کے درج ذیل ارشاد کا بھی یہی مطلب ہے: ﴿يَوْمَ نَبْطِشُ ٱلْبَطْشَةَ ٱلْكُبْرَىٰٓ﴾ یہ بطشہ، کفار قریش پر غزوہ بدر کے دن واقع ہوا۔ اور لِزَامًۢا میں بھی اشارہ معرکہ بدر کی طرف ہے۔ اسی طرح الٓمٓ ﴿١﴾ غُلِبَتِ ٱلرُّومُ ﴿٢﴾ سے سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ تک، یہ واقعہ بھی گزر چکا ہے۔