تشریح:
1۔ عہدرسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں: ایک فارس (ایران) کی اور دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی اہل کتاب کی تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ وہ غیر اللہ کے پجاری تھے جبکہ مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں کیونکہ عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔ ان دونوں حکومتوں کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی جس پر مشرکین کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: الم (1) ﴿غُلِبَتِ الرُّومُ﴾ (2) ﴿فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ﴾
2۔ ان آیات میں پیش گوئی کی گئی کہ چند سال کے اندر رومی پھرغالب آجائیں گے۔ بظاہر یہ پشین گوئی ناممکن العمل معلوم ہوتی تھی لیکن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا، چنانچہ رومی نو سال کی مدت کےاندر اندر، یعنی ساتویں سال غالب آگئے، جس سے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔ (جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث:3193)
3۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رومیوں کے غلبے کا واقعہ بھی وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔