تشریح:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے دوسرے حصے سے ہے۔ اس میں مرجیہ کی تردید ہے جن کے ہاں اہل طاعت اور اہل معصیت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے نزدیک ایمان کے بعد نہ اطاعت کا کوئی فائدہ ہے اور نہ معصیت سے کوئی ضرر۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض معاصی انسان کو کفر تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ کچھ گناہ انسان کو فاسق بنا دیتے ہیں۔ کفر اورفسق دونوں ہی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کفر تو ایمان ہی کی ضد ہے۔ اسی طرح فسق کا نقصان ظاہر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ﴾’’لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنادیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے اور کفر کو،گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنادیا ہے۔‘‘ (الحجرات 49/7)
2۔ واضح رہے کہ اس کفر سے مراد کفر حقیقی نہیں ہے کہ اس کامرتکب دین اسلام سے خارج ہو جائے جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقید ہ ہے بلکہ اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی سنگینی کے پیش نظر اس پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ہاں اگر اس جرم کو حلال سمجھتا ہو تو اس کا مرتکب کفر حقیقی کا حامل ہوگا۔ (فتح الباري: 150/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپس میں گالی گلوچ اور لعن طعن ایک مسلمان کے شایان شان نہیں، نیز ایک دوسرے کی ناحق گردنیں مارنے سے ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے۔