تشریح:
1۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ لیل و نہار کا (مقلِّب) (بکسر لام) اللہ تعالیٰ ہے اس لیے لیل و نہار جو دہرہے وہ (مقلَّب) (بفتحہ لام) ہوا۔ ظاہر ہے کہ مقلِّب اور مقلَّب ایک نہیں ہو سکتے تو لازمی طور پر(أنا الدّهر) کے معنی یہ ہوں گے کہ تعالیٰ دہر کا خالق اور مالک ہے۔
2۔ جو لوگ زمانے کو مؤثر حقیقی مانتے ہیں اور خالق دہر پر اعتقاد نہیں رکھتے انھیں دہریہ کہا جاتا ہے یہ لوگ جملہ مصائب و حوادث کو دہر کی طرف منسوب کر کے زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں اس حدیث کے ذریعے سے یہ بتایا گیا ہے کہ زمانہ خود مختار نہیں اس میں جو کچھ ہوتا ہے سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہےوہ جو چاہتا ہے اسے کر گزرتا ہے۔ (فَعَّال لِمَا يُرِيد)