تشریح:
1۔ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطیب الانصار تھے۔ مسیلمہ کذاب جب مدینہ طیبہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کو اس سے گفتگو کرنے کے لیے مقررفرمایا تھا۔ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی، اس لیے آپ آیت میں مذکور حکم سے ڈر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ تم بےادبی اور عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے بلکہ قدرتی طور پر تمہاری آواز بلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔
2۔ یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق طور پر تمہاری آوازبلند ہے، اس لیے قابل مواخذہ نہیں۔
3۔ یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ اس کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو رہا ہو، آپ کی احادیث بتائی جارہی ہوں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو مسجد نبوی میں اونچی آواز سے بولنے والوں کا محاسبہ کرتے تھے، چنانچہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے کنکری ماری میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ انھوں نے مجھے حکم دیا کہ ان دو آدمیوں کو پکڑ کر میرے پاس لاؤ۔ میں انھیں پکڑ کر آپ کے پاس لایا تو آپ نے ان سے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم طائف سے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اگرتم مدینے کے باشندے ہوتے تو میں تمھیں سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہو۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:470)