تشریح:
1۔ روایات میں یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام قراءت کی طرح (مُّدَّكِرٍ) پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنیباء، حدیث: 3341) یعنی ہم نے اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا اس سے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔
2۔ اس کا ایک بلند و بالا پہاڑ پر موجود ہونا سیکڑوں، ہزاروں برس تک لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے خبردار کرتا رہا۔ اور انھیں یاد دلاتا رہا کہ اس سر زمین پر اللہ کی نا فرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس شامت سے بچا لیا گیا؟ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جا تا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے۔ واللہ اعلم۔