تشریح:
1۔ یہ الفاظ ہرقوم کی سرگزشت کے بعد ٹیپ کے بند کی طرح بار بارآتے ہیں۔ یاد رہے کہ لفظ ذکر ان مقامات پر بڑے وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے، یعنی تعلیم و تذکیر، تنبیہ و نصیحت، حصول عبرت اور اتمام حجت سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔
2۔ سیاق وسباق کے اعتبار سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ ہمارے پیغمبر تمھیں جس عذاب سےڈرا رہے ہیں وہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ زمین کا چپہ چپہ اس کی صداقت پر گواہ ہے لیکن تم لوگ غفلت میں پڑے ہو۔ جب اس عذاب کی نشانی دیکھ لو گے، تب مانو گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم و تذکیر کے لیے یہ قرآن اتارا ہے جو تمہارے لیے ایک ضابطہ حیات اور اس کے جملہ لوازمات سے آراستہ ہے۔ آخر تم اس عظیم نعمت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ عذاب کے تازیانے کے لیے کیوں بے قرار ہو؟ واللہ المستعان۔