صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
89. باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
89. بَابٌ المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
89. Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers)
باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
489.
حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں: میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ (مکے سے مدینے کے) راستے پر بعض مخصوص مقامات کو تلاش کر کے وہاں نماز پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ ان کے والد گرامی (ابن عمر ؓ ) ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے اور انھوں نے نبی ﷺ کو ان جگہوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت نافع ؒ نے بھی بیان کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ ان مقامات پر نماز پڑھتے تھے۔ اور میں نے اس سلسلے میں حضرت سالم سے معلوم کیا تو انھوں نے بھی وہی مقامات بتائے جن کی نشاندہی حضرت نافع نے کی تھی، البتہ شرف الروحاء کی مسجد کے متعلق دونوں کا کچھ اختلاف تھا۔
تشریح:
1۔ حضرت ابن عمر ؓ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر رسول اللہ ﷺ نے نمازیں پڑھیں، وہاں نماز کے لیے خاص طورپراہتمام کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا مستحب ہے۔ویسے بھی ابن عمر ؓ کی اتباع سنت میں انتہائی شدت مشہور ہے، لیکن دوسری طرف ان کے والد گرامی سیدناحضرت عمر ؓ کا طرز عمل یہ ہے کہ اپنے کسی سفر میں انھوں نے دیکھا کہ لوگ ایک خاص جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں نماز پڑھی تھی۔اس پر آپ نے فرمایا:اگران مقامات پر اتفاقاً نماز کا وقت ہوجائے تو پڑھ لے بصورت دیگر آگے چل کر جہاں وقت ہووہاں پڑھے۔ اہل کتاب اسی لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے آثار کو تلاش کرکے وہاں عبادت گاہیں بنائیں اور گرجے تعمیر کیے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر ؒ نے باپ اور بیٹے کے طرز عمل میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا فرمان ان عام لوگوں کی زیارت سے متعلق ہے جو ان مقامات کی نماز کے بغیر زیارت کو پسندیدہ خیال کرتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو ناپسند فرمایا۔انھیں اندیشہ تھا کہ مبادا ایسے لوگ ان مقامات پر نماز پڑھنا واجب خیال کرلیں۔ حضرت ابن عمر ؓ جیسے افراد سے اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عتبان ؓ کے گھر میں اس لیے نماز پڑھی تھی تاکہ عتبان وہاں نماز پڑھا کریں۔ یہ اس بات کی دلیل ہےکہ صالحین کے آثار سے تبرک لیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري:736/1) لیکن حافظ ا بن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں ان کے موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک وبدعت کا وہ چوردروازہ کھلتاہے جسے حضرت عمر ؓ جیسے دوراندیش نے بند کرنا چاہا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے لوگوں کے اسی طرز عمل کو تو ناپسند کیا تھا کہ وہ اہتمام سے آثار صالحین تلاش کرکے وہاں نماز پڑھتے تھے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:’’جو چیزیں اتفاقی طور پر رسول اللہ ﷺ نے کی ہیں اگر اتفاقی طور پر انھیں عمل میں لایاجائے تو مضائقہ نہیں، یعنی سفر کررہے ہیں اور اتفاق سے ایسی جگہ نماز کا وقت آجائے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تو وہاں نماز پڑھ لی جائے لیکن اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا درست نہیں، حدیث میں ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تین مساجد(بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس) کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف سفر (برائے تقرب الٰہی) نہ کیا جائے۔‘‘(صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة حدیث: 1189) 2۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کہتے ہیں:زمانہ جاہلیت میں لوگ متبرک مقامات کی ’’زیارت‘‘ کے لیے جاتے تھے، اس میں چونکہ عبادت غیر اللہ کا دروازہ کھلتا ہے، اس لیے بگاڑ کی اس جڑ کو بند کردیا گیا اور میرے نزدیک کسی ولی کی قبر اور اس کی عبادت کی جگہ بھی اس حدیث میں داخل ہیں، یعنی ان کی طرف تقربی سفرجائز نہیں۔ (حجة اللہ البالغة:192/1) اس سے پہلے فتح الباری کے حوالے سے حضر ت عمر ؓ کا انتباہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ (المصنف ابن أبي شیبة:367/3) مزید برآں حضر ت عمر ؓ کو جب اطلاع ملی کہ لوگ اس درخت کے نیچے تبرکاً ٹھہرتے ہیں جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی توآپ نے اس درخت کو کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (فتح الباري:558/7) حضرت ابن عمر ؓ نے اس سلسلے میں دیگر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں شدید الاتباع ہونے کی حیثیت سے یہ راستہ اپنایا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے کبھی غارثور، غارحراء یا بیعت العقبة کے مقامات کی زیارت کے لیے سفر نہیں کیا، حالانکہ ان مقامات کے ساتھ اسلامی تاریخ کے اہم واقعات وابستہ ہیں، بلکہ ابن عمر ؓ کے متعلق یہ روایت بھی ملتی ہے کہ قزعہ تابعی ؒ نے آپ سے کوہ طور پرجانے کی بابت سوال کیا تو آپ نے اسے وہاں جانے سے منع فرمایا اور کہا کہ صرف تین مساجد کی طرف بغرض ثواب سفر کرنادرست ہے۔ (تحذیر الساجد للألباني) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے جس درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی، آئندہ سال جب وہاں گئے تو وہ درخت ہم سے پوشیدہ کردیا گیا حتی کہ ہم میں سے دوآدمی بھی اس کی تعین کے متعلق متفق نہ ہوسکے۔ اس کا مخفی ہونا بھی ہمارے لیے اللہ کی رحمت تھی۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2958) حضرت مسیب بن حزن ؓ بھی اس کے گمنام ہونے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ سے متفق ہیں۔ ( صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4164) حضرت طارق بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج کے لیے گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جوکسی جگہ اہتمام سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نےدریافت کیا کہ یہ کون سی مسجد ہے جس میں یہ لوگ اہتمام سے نماز پڑھ رہے ہیں؟ بتایاگیا کہ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت رضوان لی تھی۔ میں اسی وقت حضرت سعید بن مسیب ؒ کے پاس آیا انھیں بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ میرے باپ حضرت مسیب ؒ کے بیان کے مطابق جب ہم آئندہ سال مقام حدیبیہ میں آئے تواس درخت کو بھول گئے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود اس کی تعین سے قاصر رہے۔ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اسے معلوم نہ کرسکے۔ اگران حضرات نے اس کا کھوج لگالیا ہے تو یہ جانیں اور ان کا کام ہمیں ان سے کیا واسطہ ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4163) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ تھی کہ آئندہ کے لیے اس درخت کی خیروبرکت لوگوں کو کہیں آزمائش میں مبتلا نہ کر دے۔ اگروہ درخت باقی رہتا تو جاہل لوگ اس حد تک اس کی تعظیم کرتے کہ اس کے متعلق نفع نقصان پہنچانے کا عقیدہ بنالیتے۔ جیساکہ آج کل متعدد مقامات کے متعلق اس قسم کے عقائد ونظریات کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ (فتح الباري:143/6) اس کے علاوہ غیر نبی کو نبی پر کیونکرقیاس کیا جاسکتا ہے؟زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آثار کےمتعلق خیروبرکت کا عقیدہ رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگرحضرات کے آثار کےمتعلق کیا ثبوت ہے؟3۔ صحیح بات یہی ہے کہ حضرت عمر ؓ بڑے حساس قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے آثار انبیاء علیہم السلام کے تتبع سے اس بنا پر منع فرمایا تاکہ آئندہ کسی وقت انھیں شرک کا ذریعہ نہ بنالیا جائے وہ اپنے بیٹے سے اس معاملے میں زیادہ علم اور تجربہ رکھتےتھے۔ قصہ عتبان بھی اس کے برعکس موقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کواپنے گھر میں دعوت ہی اس لیے دی تھی کہ آپ گھر کے کسی کو نے میں نماز پڑھیں تاکہ وہ اسے مستقل جائے نماز قراردے لیں۔ لیکن راستے میں جو اتفاقاً ایسے آثار اور واقعات ملتے ہیں ان کی طرف قصداً جانا اس واقعے سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ ہمارے نزدیک ایساکرنا غیرمشروع ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق انتباہ فرمایا ہے کہ ایساکرنا اہل کتاب کا طریقہ اور شرک کا ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم۔ 4۔ حضرت ابن عمر ؓ ان مقامات پر بطور تبرک واتباع نماز پڑھتے تھے۔ ویسے تورسول اللہ ﷺ کا ہر قول، ہرفعل اور ہر نقش قدم ہمارے لیے باعث خیروبرکت ہے، مگر تبرکات انبیاء علیہم السلام کے نام سے ہمارے معاشرے میں جوافراط وتفریط پائی جاتی ہے وہ بھی حددرجہ قابل مذمت ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ آپ کے پیشاب اور فضلات تک کو بھی بلادلیل پاک کہتے ہیں۔ 5۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے دوشاگرد ہیں:ایک ان کے صاحبزادے حضرت سالم اور دوسرے ان کے آزادکردہ غلام حضرت نافع۔ جس طرح سالم ان مقامات سےمتعلقہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات بیان کرتے ہیں، اسی طرح حضرت نافع بھی روایت کرتے ہیں۔ ان دونوں کے شاگرد حضرت موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ ان مقامات کے متعلق حضرت نافع نے بیان کیاتھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وہاں نماز پڑھتے تھے۔ پھر میں نے اس سلسلے میں ان کے صاحبزادے حضرت سالم سے رابطہ کیا تو انھوں نےحضرت نافع کے بیان کے متعلق تفصیلات بیان کیں، مگرشرف الروحاء کی مسجد کے متعلق ان کے بیانات مختلف تھے۔ حضرت نافع نے تو اسے ذکر کیا، لیکن حضرت سالم اس کاتذکرہ نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ روحاء ایک جگہ کا نام ہے اور شرف کے معنی بلندی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ روحاء سے متصل جو اونچی جگہ ہے، وہاں مسجد کی تعین کے متعلق حضرت نافع اور حضرت سالم کےبیان میں اختلاف ہے۔ 6۔ آئندہ جن مقامات کی تعین الفاظ وعبارت سےکی جائے گی ان میں سے بیشتر مقامات ومساجد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ صحیح طور پر ان کاتعین تو دیکھنے والا ہی کرسکتا ہے۔ الفاظ کےذریعے سے ان کی نشاندہی بہت مشکل ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے الفاظ کے ذریعے سے بھی ان مقامات کی نشاندہی کی تھی اور عملی طور پر بھی اپنے متعلقین کو مشاہدہ کرادیاتھا۔ مکے سے مدینے تک اس سفر کی سات منازل ہیں۔ اب ہر منزل کی الگ وضاحت پیش خدمت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
478
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
483
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
483
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
483
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کے لیے زمانہ قدیم میں متعدد راستے تھے اور ان کی مسافت اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت سات دن میں طے ہوا۔اسی طرح آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک کاسفرآٹھ دن میں طے فرمایا۔ذیل کی روایات میں جن مقامات پر نماز پڑھنے کا تذکرہ ہے یہ حجۃ الوداع کے سفر سے متعلق ہیں۔اس سفر میں جن جن مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے بعض مقامات پر مساجد شرعی تعمیر ہوچکی ہیں اوربعض مقامات پر مسجدیں تعمیر نہیں ہوئیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں دو الفاظ بیان کیے ہیں:المساجد اورالمواضع۔مساجد سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں میں مساجد تعمیر ہوگئیں اور مواضع وہ مقامات ہیں جہاں مساجد تعمیر نہیں ہوئیں۔
حضرت موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں: میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ (مکے سے مدینے کے) راستے پر بعض مخصوص مقامات کو تلاش کر کے وہاں نماز پڑھتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ ان کے والد گرامی (ابن عمر ؓ ) ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے اور انھوں نے نبی ﷺ کو ان جگہوں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں: مجھ سے حضرت نافع ؒ نے بھی بیان کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ ان مقامات پر نماز پڑھتے تھے۔ اور میں نے اس سلسلے میں حضرت سالم سے معلوم کیا تو انھوں نے بھی وہی مقامات بتائے جن کی نشاندہی حضرت نافع نے کی تھی، البتہ شرف الروحاء کی مسجد کے متعلق دونوں کا کچھ اختلاف تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت ابن عمر ؓ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جن مقامات پر رسول اللہ ﷺ نے نمازیں پڑھیں، وہاں نماز کے لیے خاص طورپراہتمام کرنا اور ان سے تبرک حاصل کرنا مستحب ہے۔ویسے بھی ابن عمر ؓ کی اتباع سنت میں انتہائی شدت مشہور ہے، لیکن دوسری طرف ان کے والد گرامی سیدناحضرت عمر ؓ کا طرز عمل یہ ہے کہ اپنے کسی سفر میں انھوں نے دیکھا کہ لوگ ایک خاص جگہ پر نماز پڑھنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہاں نماز پڑھی تھی۔اس پر آپ نے فرمایا:اگران مقامات پر اتفاقاً نماز کا وقت ہوجائے تو پڑھ لے بصورت دیگر آگے چل کر جہاں وقت ہووہاں پڑھے۔ اہل کتاب اسی لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے آثار کو تلاش کرکے وہاں عبادت گاہیں بنائیں اور گرجے تعمیر کیے۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر ؒ نے باپ اور بیٹے کے طرز عمل میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا فرمان ان عام لوگوں کی زیارت سے متعلق ہے جو ان مقامات کی نماز کے بغیر زیارت کو پسندیدہ خیال کرتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے ایسے لوگوں کے طرز عمل کو ناپسند فرمایا۔انھیں اندیشہ تھا کہ مبادا ایسے لوگ ان مقامات پر نماز پڑھنا واجب خیال کرلیں۔ حضرت ابن عمر ؓ جیسے افراد سے اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عتبان ؓ کے گھر میں اس لیے نماز پڑھی تھی تاکہ عتبان وہاں نماز پڑھا کریں۔ یہ اس بات کی دلیل ہےکہ صالحین کے آثار سے تبرک لیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري:736/1) لیکن حافظ ا بن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں ان کے موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ اس سے شرک وبدعت کا وہ چوردروازہ کھلتاہے جسے حضرت عمر ؓ جیسے دوراندیش نے بند کرنا چاہا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے لوگوں کے اسی طرز عمل کو تو ناپسند کیا تھا کہ وہ اہتمام سے آثار صالحین تلاش کرکے وہاں نماز پڑھتے تھے، چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:’’جو چیزیں اتفاقی طور پر رسول اللہ ﷺ نے کی ہیں اگر اتفاقی طور پر انھیں عمل میں لایاجائے تو مضائقہ نہیں، یعنی سفر کررہے ہیں اور اتفاق سے ایسی جگہ نماز کا وقت آجائے جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تو وہاں نماز پڑھ لی جائے لیکن اس کا باقاعدہ اہتمام کرنا درست نہیں، حدیث میں ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تین مساجد(بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس) کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف سفر (برائے تقرب الٰہی) نہ کیا جائے۔‘‘(صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکة والمدینة حدیث: 1189) 2۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کہتے ہیں:زمانہ جاہلیت میں لوگ متبرک مقامات کی ’’زیارت‘‘ کے لیے جاتے تھے، اس میں چونکہ عبادت غیر اللہ کا دروازہ کھلتا ہے، اس لیے بگاڑ کی اس جڑ کو بند کردیا گیا اور میرے نزدیک کسی ولی کی قبر اور اس کی عبادت کی جگہ بھی اس حدیث میں داخل ہیں، یعنی ان کی طرف تقربی سفرجائز نہیں۔ (حجة اللہ البالغة:192/1) اس سے پہلے فتح الباری کے حوالے سے حضر ت عمر ؓ کا انتباہ بھی نقل کیا گیا ہے۔ (المصنف ابن أبي شیبة:367/3) مزید برآں حضر ت عمر ؓ کو جب اطلاع ملی کہ لوگ اس درخت کے نیچے تبرکاً ٹھہرتے ہیں جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت لی تھی توآپ نے اس درخت کو کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا۔ (فتح الباري:558/7) حضرت ابن عمر ؓ نے اس سلسلے میں دیگر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے مقابلے میں شدید الاتباع ہونے کی حیثیت سے یہ راستہ اپنایا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے کبھی غارثور، غارحراء یا بیعت العقبة کے مقامات کی زیارت کے لیے سفر نہیں کیا، حالانکہ ان مقامات کے ساتھ اسلامی تاریخ کے اہم واقعات وابستہ ہیں، بلکہ ابن عمر ؓ کے متعلق یہ روایت بھی ملتی ہے کہ قزعہ تابعی ؒ نے آپ سے کوہ طور پرجانے کی بابت سوال کیا تو آپ نے اسے وہاں جانے سے منع فرمایا اور کہا کہ صرف تین مساجد کی طرف بغرض ثواب سفر کرنادرست ہے۔ (تحذیر الساجد للألباني) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے جس درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی، آئندہ سال جب وہاں گئے تو وہ درخت ہم سے پوشیدہ کردیا گیا حتی کہ ہم میں سے دوآدمی بھی اس کی تعین کے متعلق متفق نہ ہوسکے۔ اس کا مخفی ہونا بھی ہمارے لیے اللہ کی رحمت تھی۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث:2958) حضرت مسیب بن حزن ؓ بھی اس کے گمنام ہونے کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ سے متفق ہیں۔ ( صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4164) حضرت طارق بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں ایک سال حج کے لیے گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جوکسی جگہ اہتمام سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں نےدریافت کیا کہ یہ کون سی مسجد ہے جس میں یہ لوگ اہتمام سے نماز پڑھ رہے ہیں؟ بتایاگیا کہ یہ وہی درخت ہے جس کے نیچے رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بیعت رضوان لی تھی۔ میں اسی وقت حضرت سعید بن مسیب ؒ کے پاس آیا انھیں بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ میرے باپ حضرت مسیب ؒ کے بیان کے مطابق جب ہم آئندہ سال مقام حدیبیہ میں آئے تواس درخت کو بھول گئے تھے۔ کوشش بسیار کے باوجود اس کی تعین سے قاصر رہے۔ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تو اسے معلوم نہ کرسکے۔ اگران حضرات نے اس کا کھوج لگالیا ہے تو یہ جانیں اور ان کا کام ہمیں ان سے کیا واسطہ ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4163) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس میں حکمت یہ تھی کہ آئندہ کے لیے اس درخت کی خیروبرکت لوگوں کو کہیں آزمائش میں مبتلا نہ کر دے۔ اگروہ درخت باقی رہتا تو جاہل لوگ اس حد تک اس کی تعظیم کرتے کہ اس کے متعلق نفع نقصان پہنچانے کا عقیدہ بنالیتے۔ جیساکہ آج کل متعدد مقامات کے متعلق اس قسم کے عقائد ونظریات کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ (فتح الباري:143/6) اس کے علاوہ غیر نبی کو نبی پر کیونکرقیاس کیا جاسکتا ہے؟زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آثار کےمتعلق خیروبرکت کا عقیدہ رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگرحضرات کے آثار کےمتعلق کیا ثبوت ہے؟3۔ صحیح بات یہی ہے کہ حضرت عمر ؓ بڑے حساس قسم کے انسان تھے۔ انھوں نے آثار انبیاء علیہم السلام کے تتبع سے اس بنا پر منع فرمایا تاکہ آئندہ کسی وقت انھیں شرک کا ذریعہ نہ بنالیا جائے وہ اپنے بیٹے سے اس معاملے میں زیادہ علم اور تجربہ رکھتےتھے۔ قصہ عتبان بھی اس کے برعکس موقف کے لیے دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کواپنے گھر میں دعوت ہی اس لیے دی تھی کہ آپ گھر کے کسی کو نے میں نماز پڑھیں تاکہ وہ اسے مستقل جائے نماز قراردے لیں۔ لیکن راستے میں جو اتفاقاً ایسے آثار اور واقعات ملتے ہیں ان کی طرف قصداً جانا اس واقعے سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ ہمارے نزدیک ایساکرنا غیرمشروع ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق انتباہ فرمایا ہے کہ ایساکرنا اہل کتاب کا طریقہ اور شرک کا ذریعہ ہے۔ واللہ أعلم۔ 4۔ حضرت ابن عمر ؓ ان مقامات پر بطور تبرک واتباع نماز پڑھتے تھے۔ ویسے تورسول اللہ ﷺ کا ہر قول، ہرفعل اور ہر نقش قدم ہمارے لیے باعث خیروبرکت ہے، مگر تبرکات انبیاء علیہم السلام کے نام سے ہمارے معاشرے میں جوافراط وتفریط پائی جاتی ہے وہ بھی حددرجہ قابل مذمت ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ آپ کے پیشاب اور فضلات تک کو بھی بلادلیل پاک کہتے ہیں۔ 5۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے دوشاگرد ہیں:ایک ان کے صاحبزادے حضرت سالم اور دوسرے ان کے آزادکردہ غلام حضرت نافع۔ جس طرح سالم ان مقامات سےمتعلقہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایات بیان کرتے ہیں، اسی طرح حضرت نافع بھی روایت کرتے ہیں۔ ان دونوں کے شاگرد حضرت موسیٰ بن عقبہ کا بیان ہے کہ ان مقامات کے متعلق حضرت نافع نے بیان کیاتھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ وہاں نماز پڑھتے تھے۔ پھر میں نے اس سلسلے میں ان کے صاحبزادے حضرت سالم سے رابطہ کیا تو انھوں نےحضرت نافع کے بیان کے متعلق تفصیلات بیان کیں، مگرشرف الروحاء کی مسجد کے متعلق ان کے بیانات مختلف تھے۔ حضرت نافع نے تو اسے ذکر کیا، لیکن حضرت سالم اس کاتذکرہ نہیں کرتے تھے۔ واضح رہے کہ روحاء ایک جگہ کا نام ہے اور شرف کے معنی بلندی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ روحاء سے متصل جو اونچی جگہ ہے، وہاں مسجد کی تعین کے متعلق حضرت نافع اور حضرت سالم کےبیان میں اختلاف ہے۔ 6۔ آئندہ جن مقامات کی تعین الفاظ وعبارت سےکی جائے گی ان میں سے بیشتر مقامات ومساجد لاپتہ ہوچکے ہیں۔ صحیح طور پر ان کاتعین تو دیکھنے والا ہی کرسکتا ہے۔ الفاظ کےذریعے سے ان کی نشاندہی بہت مشکل ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے الفاظ کے ذریعے سے بھی ان مقامات کی نشاندہی کی تھی اور عملی طور پر بھی اپنے متعلقین کو مشاہدہ کرادیاتھا۔ مکے سے مدینے تک اس سفر کی سات منازل ہیں۔ اب ہر منزل کی الگ وضاحت پیش خدمت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، کہا میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر کو دیکھا کہ وہ ( مدینہ سے مکہ تک ) راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈھ کو وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے باپ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر ؓ کے متعلق بیان کیا کہ وہ ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے سالم سے پوچھا تو مجھے خوب یاد ہے کہ انھوں نے بھی نافع کے بیان کے مطابق ہی تمام مقامات کا ذکر کیا۔ فقط مقام شرف روحاء کی مسجد کے متعلق دونوں نے اختلاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
شرف الروحاء مدینہ سے 30 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس جگہ سترنبیوں نے عبادت الٰہی کی ہے اوریہاں سے حضرت موسیٰ ؑ حج یا عمرے کی نیت سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ سنت رسول کے پیش نظر اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے اورحضرت عمرؓ نے ایسے تاریخی مقامات کو ڈھونڈھنے سے اس لیے منع کیاکہ ایسا نہ ہوآگے چل کر لوگ اس کو ضروری سمجھ لیں۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کی مراد یہ تھی کہ خالی اس قسم کے آثار کی زیارت کرنا بغیرنماز کی نیت کے بے، فائدہ ہے اور عتبان کی حدیث اوپر گزر چکی ہے، انھوں نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ ﷺ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجیے تاکہ میں اس کونماز کی جگہ بنالوں۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی درخواست کو منظور فرمایاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے آثار سے بایں طور برکت لینا درست ہے، خاص طور پر رسول کریم ﷺ کا ہرقول وہرفعل وہرنقش قدم ہمارے لیے سرمایہ برکت وسعادت ہیں۔ مگراس بارے میں جوافراط وتفریط سے کام لیاگیا ہے وہ بھی حد درجہ قابل مذمت ہے۔ مثلاً صاحب انوارالباری ( دیوبندی ) نے اپنی کتاب مذکور جلد 5 ص 157 پر ایک جگہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی طرف منسوب کیاہے کہ وہ آپ ﷺ کے پیشاب اورتمام فضلات کو بھی طاہر کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ جیسے سیدالفقہاءایسا نہیں کہہ سکتے، مگر یہی وہ غلو ہے جو تبرکات انبیاء کے نام پر کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین!
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Fudail bin Sulaiman (RA): Musa bin 'Uqba said, "I saw Salim bin 'Abdullah looking for some places on the way and prayed there. He narrated that his father used to pray there, and had seen the Prophet (ﷺ) praying at those very places." Narrated Nafi' on the authority of Ibn 'Umar (RA) who said, "I used to pray at those places." Musa the narrator added, "I asked Salim on which he said, 'I agree with Nafi' concerning those places, except the mosque situated at the place called Sharaf Ar-Rawha."