تشریح:
1۔ اس حدیث کا تعلق عنوان کے پہلے حصے سے ہے کیونکہ لڑائی کے موقع پر عموماً آوازیں بلند ہوجاتی ہیں اور ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں رفع صوت پر حبط اعمال کا خطرہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (الحجرات: 49 : 2) پہلے تو لڑائی جھگڑا خود ہی ایک مذموم فعل ہے۔ پھر اگر یہ فعل مسجد میں ہوتو اس کی شناعت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر یہ واقعہ خود مسجد نبوی میں پیش آیا جہاں ایک نماز پڑھنے سے ایک ہزار نماز کا ثواب ملتا ہے، مزید برآں وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ یہ تمام چیزیں ایک بُرائی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہیں۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر تو حبط اعمال کا خطرہ ہی خطرہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے اس کی تعیین کا علم محو کردینے میں امت کے لیے یہ تنبیہ ہے کہ یہ بھی احباط ہی کی ایک قسم ہے، لہذا ہمیں حبط کے تمام اسباب سے اجتناب کرنا چاہیے۔
2۔ اس حدیث کا عنوان کے دوسرے حصے سے بھی تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں باہمی جنگ وجدال پر اصرار سے اجتناب کا امر تھا۔ اس حدیث میں تقاتل(باہم لڑائی) کی خرابی اور اس کا انجام بتایا گیا ہے کہ اس خصومت کی نحوست سے شب قدر کی تعیین جیسی عظیم دولت سے ہمیں محروم کردیاگیا اگرچہ اس میں یہ حکمت تھی کہ اس کی تلاش میں لوگ زیادہ عبادت کریں۔ عنوان کے آخری حصے سے اس حدیث کی مناسبت بایں طور پر بھی بیان کی گئی ہےکہ باہمی جنگ وجدال بسا اوقات گالی گلوچ تک پہنچا دیتا ہے جو فسق ہے جورفتہ رفتہ ایمان کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور وہ ہرسال انھی تاریخوں میں آتی ہے۔ جو لوگ اس کو ستائیسویں رات کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال درست نہیں ہے۔