صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
89. باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
89. بَابٌ المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
89. Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers)
باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
492.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس چھوٹی سی پہاڑی کے پاس بھی نماز پڑھا کرتے تھے جو روحاء کے خاتمے پر ہے۔ اس پہاڑی کا سلسلہ راستے کے آخری کنارے پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ مکے کو جاتے ہوئے اس مسجد کے قریب جو اس (پہاڑی) کے اور روحاء کے آخری حصے کے درمیان ہے۔ وہاں ایک اور مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ اس مسجد میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ اسے اپنی بائیں طرف اور پیچھے چھوڑ دیتے اور اس کے آگے پہاڑی کے پاس نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد روحاء سے چلتے،پھر ظہر کی نماز اسی جگہ پہنچ کر ادا کرتے۔ اور جب مکے سے واپس آتے تو صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے یا سحری کے آخری وقت وہاں پڑاؤ کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔
تشریح:
دوسری منزل: دوسری منزل شرف الروحاء کے نام سے ذکر کی گئی ہے۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے وقت اس آبادی کا بالائی حصہ شرف الروحاء کہلاتا ہے اورآبادی سے نکلتے ہوئے جو حصہ آتا ہے، اسے منصرف الروحاء کہاجاتا ہے۔ یہاں دو مسجدیں ہیں: ایک تو اہل علاقہ کے لیے ہے جو بڑی ہے اور دوسری چھوٹی مسجد ہے۔ اس دوسری منزل میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جگہ ایک ہی تھی۔حضرت ابن عمر ؓ مقام روحاء سے دوپہر ڈھلنے کے بعد چلتے،مگر ظہر اس جگہ آکر پڑھتے۔اسی طرح مکہ مکرمہ سے واپسی کے موقع پر اگر آخر شب ادھر سے گزرتے تویہیں قیام کرتے اور فجر کی نماز اس جگہ ادا کرتے۔روحاء میں یہ دونوں مساجد باقی ہیں اور انھیں اس علاقے کے لوگ جانتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بیان کے مطابق یہ چھوٹی مسجد بھی رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ پر تعمیر نہیں ہوئی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
481
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
486
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
486
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
486
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کے لیے زمانہ قدیم میں متعدد راستے تھے اور ان کی مسافت اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت سات دن میں طے ہوا۔اسی طرح آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک کاسفرآٹھ دن میں طے فرمایا۔ذیل کی روایات میں جن مقامات پر نماز پڑھنے کا تذکرہ ہے یہ حجۃ الوداع کے سفر سے متعلق ہیں۔اس سفر میں جن جن مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے بعض مقامات پر مساجد شرعی تعمیر ہوچکی ہیں اوربعض مقامات پر مسجدیں تعمیر نہیں ہوئیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں دو الفاظ بیان کیے ہیں:المساجد اورالمواضع۔مساجد سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں میں مساجد تعمیر ہوگئیں اور مواضع وہ مقامات ہیں جہاں مساجد تعمیر نہیں ہوئیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس چھوٹی سی پہاڑی کے پاس بھی نماز پڑھا کرتے تھے جو روحاء کے خاتمے پر ہے۔ اس پہاڑی کا سلسلہ راستے کے آخری کنارے پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ مکے کو جاتے ہوئے اس مسجد کے قریب جو اس (پہاڑی) کے اور روحاء کے آخری حصے کے درمیان ہے۔ وہاں ایک اور مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ اس مسجد میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے بلکہ اسے اپنی بائیں طرف اور پیچھے چھوڑ دیتے اور اس کے آگے پہاڑی کے پاس نماز پڑھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ زوال آفتاب کے بعد روحاء سے چلتے،پھر ظہر کی نماز اسی جگہ پہنچ کر ادا کرتے۔ اور جب مکے سے واپس آتے تو صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے یا سحری کے آخری وقت وہاں پڑاؤ کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری منزل: دوسری منزل شرف الروحاء کے نام سے ذکر کی گئی ہے۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جاتے وقت اس آبادی کا بالائی حصہ شرف الروحاء کہلاتا ہے اورآبادی سے نکلتے ہوئے جو حصہ آتا ہے، اسے منصرف الروحاء کہاجاتا ہے۔ یہاں دو مسجدیں ہیں: ایک تو اہل علاقہ کے لیے ہے جو بڑی ہے اور دوسری چھوٹی مسجد ہے۔ اس دوسری منزل میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کی جگہ ایک ہی تھی۔حضرت ابن عمر ؓ مقام روحاء سے دوپہر ڈھلنے کے بعد چلتے،مگر ظہر اس جگہ آکر پڑھتے۔اسی طرح مکہ مکرمہ سے واپسی کے موقع پر اگر آخر شب ادھر سے گزرتے تویہیں قیام کرتے اور فجر کی نماز اس جگہ ادا کرتے۔روحاء میں یہ دونوں مساجد باقی ہیں اور انھیں اس علاقے کے لوگ جانتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بیان کے مطابق یہ چھوٹی مسجد بھی رسول اللہ ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ پر تعمیر نہیں ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عبداللہ بن عمر ؓ اس چھوٹی پہاڑی کی طرف نماز پڑھتے جو روحاء کے آخر کنارے پر ہے اور یہ پہاڑی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں راستے کا کنارہ ہے۔ اس مسجد کے قریب جو اس کے اور روحاء کے آخری حصے کے بیچ میں ہے مکہ کو جاتے ہوئے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ اس مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے بائیں طرف مقابل میں چھوڑ دیتے اور آگے بڑھ کر خود پہاڑی عرق الطبیہ کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر ؓ جب روحاء سے چلتے تو ظہر اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک اس مقام پر نہ پہنچ جاتے۔ جب یہاں آ جاتے تو ظہر پڑھتے، اور اگر مکہ سے آتے ہوئے صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے یا سحر کے آخر میں وہاں سے گزرتے تو صبح کی نماز تک وہیں آرام کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔