تشریح:
1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لاتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے کہ کہیں ایسانہ ہو کوئی آیت بھول جائے۔ اس سے آپ پر بہت سختی ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔
2۔ یہ حکم پہلے بھی دیا جا چکا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری ہو جائے۔‘‘ (طٰه: 20۔114) اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرشتے کے ساتھ اس طرح جلدی جلدی پڑھنے سے منع فرما دیا۔ آپ جلدی اس لیے کرتے تھے کہ وحی الٰہی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت دی کہ آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قراءت کو جاری کر دینا ہماری ذمے داری ہےآپ کا کام یہ ہے کہ اس دوران میں آپ خاموشی سے سنا کریں۔