قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ: {فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {قَرَأْنَاهُ} [القيامة: 18]: «بَيَّنَّاهُ»، {فَاتَّبِعْ} [القيامة: 18]: «اعْمَلْ بِهِ»

4929. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْوَحْيِ وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَهُ وَشَفَتَيْهِ فَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ وَكَانَ يُعْرَفُ مِنْهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ الْآيَةَ الَّتِي فِي لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ قَالَ عَلَيْنَا أَنْ نَجْمَعَهُ فِي صَدْرِكَ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ فَإِذَا أَنْزَلْنَاهُ فَاسْتَمِعْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ عَلَيْنَا أَنْ نُبَيِّنَهُ بِلِسَانِكَ قَالَ فَكَانَ إِذَا أَتَاهُ جِبْرِيلُ أَطْرَقَ فَإِذَا ذَهَبَ قَرَأَهُ كَمَا وَعَدَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى تَوَعُّدٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ یعنی ”پھر جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہو جایا کریں۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «قرأناه» کے معنی یہ ہیں ”ہم نے اسے بیان کیا“ اور «فاتبع» کا معنی یہ کہ ”تم اس پر عمل کرو۔“

4929.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے (لَا تُحَرِّكْ بِهِۦ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِۦٓ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت جبرئیل ؑ جب وحی لے کر آتے تو رسول اللہ ﷺ اسے یاد کرنے کے لیے اپنی زبان اور ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ اس سے آپ کو بڑی دشواری پیش آتی اور یہ دشواری، آپ سے پہچانی جاتی تھی، اس پراللہ تعالٰی نے وہ آیات اتاری جو (لَآ أُقْسِمُ بِيَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ) میں ہے کہ ’’آپ جلدی کرتے ہوئے زبان کو نہ ہلایا کریں۔ اس کا آپ کے سینے میں ج دینا اور اسے پڑھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ (فَإِذَا قَرَأْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْءَانَهُ)ۥ کا مطلب ہے کہ جب ہم قرآن کو اتار رہے ہوں تو آپ غور سے سنا کریں۔ (ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ)ۥ کا مطلب ہے کہ ہم آپ کی زبان کے ذریعے سے اس کی وضاحت کرا دیں گے۔ اس کے بعد آپ کی عادت مبارک یہ تھی کہ جب بھی حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس آتے تو آپ سر جھکا کر بیٹھ جاتے۔ جب وہ چلے جاتے تو اللہ تعالٰی کے وعدے کے مطابق آپ اس کی قراءت کرتے۔ (اس سورت کے آخر میں ہے: ) (أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ) اس سے دھمکی اور ڈرانا مقصود ہے، یعنی تیرے لیے تباہی ہو، پھر تیرے لیے بربادی ہو۔