تشریح:
1۔ اس روایت سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عیدین کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو نیزہ وغیرہ آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے سامنے نصب کردیاجاتا، پھر آپ نماز پڑھاتے، اسی سترے کو مقتدیوں کے لیے بھی کافی خیال کیاجاتا تھا، کیونکہ مقتدیوں کے لیے الگ سترے کا ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں، نیز یہ بھی تفصیل نہیں کہ نیزے کو صرف امام کے لیے سترہ مانا جائے، پھر امام کو قوم کے حق میں سترہ قرار دیا جائے۔
2۔ سعد القرظ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا جسے آپ نے اس طرح کی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو غزوہ احد میں ایک مشرک سے ہاتھ لگا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے ان سے لے لیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت زبیر بن عوام ؓ والا نیزہ استعمال ہوتا تھا۔ پھر نجاشی کا ہبہ کیا ہوا نیزہ استعمال ہونے لگا۔ (فتح الباري:741/1)
3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نیزہ وغیرہ کے ساتھ رکھنے میں مختلف مصلحتیں تھیں جن میں ایک مصلحت یہ تھی کہ اسے کھلے میدان میں نماز کے وقت بطور سترہ استعمال کیا جاتا تھا، نیزبوقت ضرورت دشمن سے بچاؤ کے بھی کام آسکتا ہے۔