صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
89. باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
89. بَابٌ المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
89. Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers)
باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
494.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے اس ٹیلے کے کنارے پر بھی نماز پڑھی جہاں سے پانی اترتا ہے۔ یہ مقام ہضبہ کو جاتے ہوئے عرج کے پیچھے واقع ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ راستے سے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس ہے جو راستے پر واقع ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ دوپہر کو زوال کے بعد عرج سے ان بڑے پتھروں کے درمیان چلتے، پھر ظہر کی نماز اس مسجد میں ادا کرتے۔
تشریح:
چوتھی منزل:اس منزل کاعرج کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ عر ج ایک آبادی کا نام ہے جومقام رویثہ سے 14 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس منزل کے جو نشانات اور علامتیں ذکر کی گئی ہیں، ان سے آج اس جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ (فتح الباري:737/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
483
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
488
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
488
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
488
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کے لیے زمانہ قدیم میں متعدد راستے تھے اور ان کی مسافت اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت سات دن میں طے ہوا۔اسی طرح آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک کاسفرآٹھ دن میں طے فرمایا۔ذیل کی روایات میں جن مقامات پر نماز پڑھنے کا تذکرہ ہے یہ حجۃ الوداع کے سفر سے متعلق ہیں۔اس سفر میں جن جن مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے بعض مقامات پر مساجد شرعی تعمیر ہوچکی ہیں اوربعض مقامات پر مسجدیں تعمیر نہیں ہوئیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں دو الفاظ بیان کیے ہیں:المساجد اورالمواضع۔مساجد سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں میں مساجد تعمیر ہوگئیں اور مواضع وہ مقامات ہیں جہاں مساجد تعمیر نہیں ہوئیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ نے اس ٹیلے کے کنارے پر بھی نماز پڑھی جہاں سے پانی اترتا ہے۔ یہ مقام ہضبہ کو جاتے ہوئے عرج کے پیچھے واقع ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ راستے سے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس ہے جو راستے پر واقع ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ دوپہر کو زوال کے بعد عرج سے ان بڑے پتھروں کے درمیان چلتے، پھر ظہر کی نماز اس مسجد میں ادا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
چوتھی منزل:اس منزل کاعرج کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ عر ج ایک آبادی کا نام ہے جومقام رویثہ سے 14 میل کے فاصلے پر ہے۔ اس منزل کے جو نشانات اور علامتیں ذکر کی گئی ہیں، ان سے آج اس جگہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ (فتح الباري:737/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے نافع سے یہ بیان کیا کہ نبی ﷺ نے قریہ عرج کے قریب اس نالے کے کنارے نماز پڑھی جو پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے پڑتا ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان قبروں پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں، راستے کے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس جو راستے میں ہیں۔ ان کے درمیان میں ہو کر نماز پڑھی، عبداللہ بن عمر ؓ قریہ عرج سے سورج ڈھلنے کے بعد چلتے اور ظہر اسی مسجد میں آ کر پڑھا کرتے تھے۔