تشریح:
1۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل شام (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پڑھتے ہیں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) سنا ہے،لہذا میں تو اسی طرح پڑھوں گا۔ 2۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگرحضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت یقینی ہے تو اہل شام نے ان کی مخالفت کیوں کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل شام کی قراءت بھی یقینی ہے کیونکہ ان کی قراءت کا ثبوت تواتر پرہے، نیز یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ مصحف عثمانی جس پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور امت کا اجماع ہے، اس میں یہ آیت اس طرح ہے (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) لہذا یہ واجب الاتباع ہے۔
3۔ ممکن ہے کہ (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہو لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا علم نہ ہوا ہو۔ مصاحف عثمانی کی جب اشاعت ہوئی تو ان میں ہرمنسوخ قراءت کو ختم کردیا گیا تھا لیکن شاید انھیں اس کا علم نہ ہوا ہو۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ شام میں فن قراءت کے امام حضرت ابوعمران عبداللہ بن عامر جب قراءت بیان کرتے ہیں تو ان کی سند میں حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر بھی آتا ہے۔ ان کی قراءت بھی جمہور کی قراءت کے مطابق ہے۔ اسی طرح جب کوفے کے ائمہ قراءت حضرت عاصم، حضرت حمزہ اور امام کسائی قراءت نقل کرتے ہیں توان کی سند میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واسطہ بھی آتا ہے۔ ان کی قراءت بھی جمہور کی قراءت کے مطابق ہے، یعنی یہ سب حضرات (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جب انھیں تسلی ہوگئی تو انھوں نے اپنی قراءت سے رجوع کر کے جمہور کی قراءت کے مطابق پڑھنا شروع کر دیا ہو۔
4۔ بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ (وَالذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) بھی حروف سبعہ سے تھی جسے عرض اخیرہ میں منسوخ کردیاگیا اور(وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ) پر اتفاق ہو گیا۔ واللہ اعلم۔