تشریح:
1۔ اس روایت میں واضح طور پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کے نزدیک ایک میدانی علاقے وادی بطحاء میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی اورسفر کی بنیاد پر ان میں قصر کی، نیز سترے کے طورپرآپ کے سامنے نیزہ گاڑ دیا گیا، چنانچہ دوران نمازمیں سترے کے آگے سے عورتیں اور گدھے گزرتے رہے، لیکن اس کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔
2۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہواکہ امام کےسترے ہی کومقتدیوں کے لیے کافی خیال کرلیا گیا، ان کے لیے الگ سترے کااہتمام نہیں کیاگیا۔ روایت میں ہے کہ آپ کے سامنے سے عورتیں اورگدھے گزر رہے تھے۔ اس سے مراد آپ کے اور نیزے کے درمیان سے گزرنا نہیں بلکہ نیزے کے آگے سے گزرنا مراد ہے، جیسا کہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں وضاحت ہے کہ میں نے لوگوں اورچوپاؤں کو دیکھا کہ وہ نیزے کے آگے سے گزررہے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5786) صحیح بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ حضرت بلال ؓ نے آپ کے سامنے نیزہ نصب کیا، پھر نماز کے لیے تکبیر کہی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:633)