تشریح:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمال دانائی اور دیانت داری تھی کہ اختلاف سے بچنے کے لیے آپ نے سوال مذکورہ کے جواب میں وہی الفاظ نقل کر دیے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے تھے۔ اس انداز سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ان سورتوں کو قرآن کریم سے جدا مانتے تو فوراً کہہ دیتے کہ یہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ ان کے طرز گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان سورتوں کو قرآن کا حصہ مانتے تھے۔
ضروری تنبیہ: پناہ مانگنے کے فعل میں چار چیزیں لازمی طور پر ہوتی ہیں: ایک بجائے خود پناہ مانگنا، دوسرے پناہ مانگنا والا، تیسرے جس کی پناہ مانگی جائے اور چوتھی وہ جس سے پناہ مانگی جائے، مثلاً ہم اللہ سے شیطان کی پناہ مانگتے ہیں، تو ہم خود پناہ مانگنے والے ہیں، اور اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، اور شیطان کے شر سے پناہ چاہتے ہیں، ہمارا اللہ سے التجا کرنا پناہ مانگنے کا عمل ہے۔ پہلی سورت فلق میں اللہ کی ایک صفت کے حوالے سے چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے: مخلوق کے شر،رات کے شر، گرہ میں پھونکنے والیوں کے شر اور حاسد کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ دوسری سورت (الناس) میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کاحوالہ دے کرصرف ایک چیز سے پناہ مانگی گئی ہے اور وہ وسواس، خناس کے شر سے پناہ طلب کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وسواس، خناس سے پناہ بہت عظیم ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی تین صفات، یعنی رب الناس، ملك الناس اور إلٰه الناس جیسی صفات کا واسطہ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس سورت میں شیطان سے پناہ طلب کی جارہی ہے۔ انسان کسی سے پناہ اس وقت مانگتا ہے جب تنہا اس کا مقابلہ نہ کرسکتا ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابلیس نے روز اول سے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ میں اولاد آدم کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا اور اس نے قسم اٹھا کر کہا ہے کہ میں اس راستے پر بیٹھ کر گمراہ کروں گا جس پر چل کر انھوں نے اُخروی کامیابی حاصل کرنی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن جانو، وہ تو اپنے گروہ کو اس لیے دعوت دیتا ہے۔ تا کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس لعنتی سے سخت عداوت اوردشمنی رکھی جائے۔ دجل و فریب اور ہتھکنڈوں سے بچنے کے لیے انتہائی محنت کی جائے، جس طرح دشمن سے بچاؤ کے لیے انسان کرتا ہے، وہ تدبیر صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ ہے۔ انسان کو اس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ میں آنا چاہیے۔ اس سورت میں اس کا طریقہ واردات بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کسی کا بازو پکڑ کر گمراہ نہیں کرتا بلکہ وسوسہ اندازی کرتا ہے اور سبز باغ دکھاتا ہے، نیز اپنے دام ہم رنگ زمین میں پھنسانے کے لیے دنیا کے اعمال کو خوشنما کر کے پیش کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہا گیا ہے: ’’اگرشیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو یقیناً وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ (حٰم السجدة: 41) بحرحال شیطان نے روز اول سے جس گمان کا اظہار کیا تھا اسے سچا کر دکھایا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا۔ یہ لوگ سب کے سب اس کے تابع بن گئے ہیں۔ سوائے اہل ایمان کی ایک جماعت کے۔‘‘ (سبا:34/20) حالانکہ شیطان صرف وسوسہ اندازی کا ہتھیار استعمال کرتا ہے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ وہ قیامت کے دن اپنے اختیارات کا برملا اظہار کرے گا، جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: ’’اللہ نے تمھیں سچا وعدہ دیا تھا اور میں نے جو تم سے وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا۔ میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمھیں پکارا اور تم نے میری پکار پر لبیک کہہ دیا۔ اب تم مجھے ملامت نہ کرو خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے۔ میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے۔ یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (إبراهیم:22/14) شیطان سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے: ’’اے میرے پروردگار!میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘ (المومنون:97۔98) اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمین یہ دعا سکھائی ہے: (أَعوذُ باللهِ العَظيـم وَبِوَجْهِـهِ الكَرِيـم وَسُلْطـانِه القَديـم مِنَ الشّيْـطانِ الرَّجـيم) اگر یہ دعا پڑھ لی جائے توشیطان کہتا ہے: آج یہ پورے دن کے لیے مجھ سے محفوظ ہوگیا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 466)