صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
89. باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
89. بَابٌ المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
89. Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers)
باب: ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا فرمائی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The mosques which are on the way to Al-Madina and the places where the Prophet (pbuh) had offered Salat (Prayers))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
498.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اس پہاڑ کے دونوں دروں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبے کی سمت میں ہے۔ آپ اس مسجد کو جو ٹیلے کے کنارے پر اب وہاں تعمیر ہوئی ہے، اپنی بائیں جانب کر لیتے۔ نبی ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہی مائل ٹیلے پر تھی۔ (اگر تو) ٹیلے سے کم و بیش دس ہاتھ چھوڑ کر وہاں نماز پڑھے تو تیرا رخ سیدھا پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف ہو گا، یعنی وہ پہاڑی جو تیرے اور بیت اللہ کے درمیان واقع ہے۔
تشریح:
1۔ ساتویں منزل: یہ منزل ذوطوی کے نام سے ذکر کی گئی ہے۔ ذوطوی مکہ مکرمہ سے تین میل سے کچھ کم فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے سفر کی آخری منزل ہے۔ آپ یہاں قیام فرماتے، پھر نماز فجر پڑھ کر مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے۔ ان روایات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک ان مقامات کی تفصیل بیان کی ہے۔ جہاں رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں نمازیں ادا کی تھیں۔ زمانہ قدیم ہی سے اکثر مقامات معدوم ہوچکے ہیں، لیکن کچھ مقامات متعین ہیں اور وہاں مساجد بنا دی گئی ہیں۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ بغوی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جن مساجد میں رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے ان میں سے کسی مسجد کے متعلق نماز پڑھنے کی نذر کرلی جائے تو وہ مساجد ثلاثہ کی طرح عمل کے لیے متعین ہوجائے گی، یعنی اس مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا واجب ہوجائے گا۔ (فتح الباري:738/1) لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں کیونکہ حدیث کے خلاف ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مکہ عطا فرمائی تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ آپ نے فرمایا:’’اگرتم یہیں مکہ میں نماز پڑھ لو تو تمہاری نذر پوری ہوجائے گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الإیمان والنذور، حدیث:3305) 3۔ امام بخاری ؒ نے یہاں ان مساجد کا ذکر کیا ہے جو مدینے سے مکہ جاتے ہوئے راستے میں آتی ہیں، لیکن مدینہ منورہ میں متعدد مساجد ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی چونکہ وہ امام بخاری ؒ کی شرائط صحت پر پوری نہ اترتی تھی، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: مسجد قباء، مسجد فتح، مسجد قبلتین، مسجد بنی قریظہ، مسجد شمس، مسجد اجابہ، مسجد مشربہ ام ابراہیم اور مسجد بغلہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ بعض مساجد ایسی بھی ہیں جن کا آج نام ونشان تک نہیں۔ اب ان کاتذکرہ صرف کتابوں میں ملتا ہے۔ (فتح الباري:738/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
487
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
492
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
492
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
492
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے کے لیے زمانہ قدیم میں متعدد راستے تھے اور ان کی مسافت اتنی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت سات دن میں طے ہوا۔اسی طرح آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک کاسفرآٹھ دن میں طے فرمایا۔ذیل کی روایات میں جن مقامات پر نماز پڑھنے کا تذکرہ ہے یہ حجۃ الوداع کے سفر سے متعلق ہیں۔اس سفر میں جن جن مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے بعض مقامات پر مساجد شرعی تعمیر ہوچکی ہیں اوربعض مقامات پر مسجدیں تعمیر نہیں ہوئیں۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں دو الفاظ بیان کیے ہیں:المساجد اورالمواضع۔مساجد سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں میں مساجد تعمیر ہوگئیں اور مواضع وہ مقامات ہیں جہاں مساجد تعمیر نہیں ہوئیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ نے اس پہاڑ کے دونوں دروں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبے کی سمت میں ہے۔ آپ اس مسجد کو جو ٹیلے کے کنارے پر اب وہاں تعمیر ہوئی ہے، اپنی بائیں جانب کر لیتے۔ نبی ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہی مائل ٹیلے پر تھی۔ (اگر تو) ٹیلے سے کم و بیش دس ہاتھ چھوڑ کر وہاں نماز پڑھے تو تیرا رخ سیدھا پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف ہو گا، یعنی وہ پہاڑی جو تیرے اور بیت اللہ کے درمیان واقع ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ساتویں منزل: یہ منزل ذوطوی کے نام سے ذکر کی گئی ہے۔ ذوطوی مکہ مکرمہ سے تین میل سے کچھ کم فاصلے پر ایک جگہ کا نام ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے سفر کی آخری منزل ہے۔ آپ یہاں قیام فرماتے، پھر نماز فجر پڑھ کر مکہ مکرمہ تشریف لے جاتے۔ ان روایات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک ان مقامات کی تفصیل بیان کی ہے۔ جہاں رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر میں نمازیں ادا کی تھیں۔ زمانہ قدیم ہی سے اکثر مقامات معدوم ہوچکے ہیں، لیکن کچھ مقامات متعین ہیں اور وہاں مساجد بنا دی گئی ہیں۔ واللہ أعلم۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ بغوی ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جن مساجد میں رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنا ثابت ہے ان میں سے کسی مسجد کے متعلق نماز پڑھنے کی نذر کرلی جائے تو وہ مساجد ثلاثہ کی طرح عمل کے لیے متعین ہوجائے گی، یعنی اس مسجد میں جاکر نماز ادا کرنا واجب ہوجائے گا۔ (فتح الباري:738/1) لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں کیونکہ حدیث کے خلاف ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگراللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح مکہ عطا فرمائی تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ آپ نے فرمایا:’’اگرتم یہیں مکہ میں نماز پڑھ لو تو تمہاری نذر پوری ہوجائے گی۔‘‘ (سنن أبي داود، الإیمان والنذور، حدیث:3305) 3۔ امام بخاری ؒ نے یہاں ان مساجد کا ذکر کیا ہے جو مدینے سے مکہ جاتے ہوئے راستے میں آتی ہیں، لیکن مدینہ منورہ میں متعدد مساجد ایسی ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی تھی چونکہ وہ امام بخاری ؒ کی شرائط صحت پر پوری نہ اترتی تھی، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں: مسجد قباء، مسجد فتح، مسجد قبلتین، مسجد بنی قریظہ، مسجد شمس، مسجد اجابہ، مسجد مشربہ ام ابراہیم اور مسجد بغلہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ بعض مساجد ایسی بھی ہیں جن کا آج نام ونشان تک نہیں۔ اب ان کاتذکرہ صرف کتابوں میں ملتا ہے۔ (فتح الباري:738/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے حضرت نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے اس پہاڑ کے دونوں کونوں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبہ کی سمت ہیں۔ آپ اس مسجد کو جواب وہاں تعمیر ہوئی ہے اپنی بائیں طرف کر لیتے ٹیلے کے کنارے۔ اور نبی کریم ﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلے پر تھی ٹیلے سے تقریباً دس ہاتھ چھوڑ کر پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہے۔
حدیث حاشیہ:
امام قسطلانی ؒ شارح بخاری لکھتے ہیں کہ ان مقامات میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا نماز پڑھنا تبرک حاصل کرنے کے لیے تھا اور یہ اس کے خلاف نہیں جو حضرت عمرؓ سے مروی ہے۔ کیونکہ عمرؓ نے اس حال میں اس کو مکروہ رکھا جب کوئی واجب اورضروری سمجھ کر ایسا کرے۔ یہاں جن جن مقامات کی مساجد کا ذکر ہے۔ ان میں سے اکثراب ناپید ہوچکی ہیں۔ چند باقی ہیں۔ ذوالحلیفہ ایک مشہور مقام ہے جہاں سے اہل مدینہ احرام باندھا کرتے ہیں۔ بطحاءوہ جگہ ہے جہاں پانی کا بہاؤ ہے اوروہاں باریک باریک کنکریاں ہیں۔ رویثہ مدینہ سے سترہ فرس کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے۔ یہاں سے عرج نامی گاؤں تیرہ چودہ میل پڑتاہے۔ ہضبہ بھی مدینہ کے راستے میں ایک پہاڑ ہے جو زمین پر پھیلا ہوا ہے ہرشی حجفہ کے قریب مدینہ اورشام کے راستوں میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ مہرالظہران ایک مشہور مقام ہے۔ صفراوات وہ ندی نالے اورپہاڑ جو مرالظہران کے بعدآتے ہیں۔ اس حدیث میں نوحدیثیں مذکو رہیں۔ ان کو حسن بن سفیان نے متفرق طور پر اپنی مسند میں نکالا ہے۔ مگرتیسری کو نہیں نکالا۔ اور مسلم نے آخری حدیث کو کتاب الحج میں نکالاہے۔ اب ان مساجد کا پتہ نہیں چلتا نہ درخت اورنشانات باقی ہیں۔ خود مدینہ منورہ میں آنحضرت ﷺ نے جن جن مساجد میں نماز پڑھی ہے ان کو عمربن شیبہ نے اخبار مدینہ میں ذکرکیاہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے عہدخلافت میں ان کومعلوم کرکے نقشی پتھروں سے تعمیرکرادیا تھا، ان میں سے مسجد قبا، مسجد فضیخ، مسجدبنی قریظہ، مسجد بغلہ، مسجد بنی معاویہ، مسجد فتح، مسجد قبلتین وغیرہ وغیرہ ابھی تک باقی ہیں۔ موجودہ حکومت سعودیہ نے اکثرمساجد کو عمدہ طور پر مستحکم کردیا ہے۔ اس حدیث میں جس سفر کی نمازوں کا ذکر ہے وہ سات دن تک جاری رہا تھا اورآپ نے اس میں 35 نمازیں ادا کی تھیں راویان حدیث نے اکثر کا ذکر نہیں کیا۔ وادی روحاء کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ قال الشیخ ابن حجر:''هَذِهِ الْمَسَاجِدُ لَا يُعْرَفُ الْيَوْمَ مِنْهَا غَيْرُ مَسْجِدَيْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَالْمَسَاجِدُ الَّتِي بِالرَّوْحَاءِ يَعْرِفُهَا أَهْلُ تِلْكَ النَّاحِيَةِ انتهیٰ۔'' و إنما کان ابن عمر یصلي في تلك المواضع تبرکا بها ولم یزل الناس یتبرکون بمواضع الصلحاء وأما ماروي عن عمر أنه کرہ ذلك فلأنه خشی أن یلتزم الناس الصلوٰة في تلك المواضع وینبغي للعالم إذا رأی الناس یلتزمون بالنوافل التزاما شدیدا أن ینهاهم عنه۔''’’علامہ ابن حجرؒ کی اس تقریر کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ یعنی ان مقامات پر نماز محض تبرکا پڑھتے تھے۔ مگرعوام اس کا التزام کرنے لگیں تو علماءکے لیے ضروری ہے کہ ان کوروکیں۔‘‘