تشریح:
1۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے بطور خاص مکے کا ذکر ایک مغالطے کو دور کرنے کے لیے کیا ہے کہ سترہ بمنزلہ قبلہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی طرف منہ کرتے ہیں اور یہ مناسب نہیں کہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز قبلے کا مقام حاصل کرے، لہٰذا مکے میں سترے کی ضرورت نہیں، گویا وہ کہناچاہتے ہیں کہ ایک مقام پر دو قبلے نہیں ہوسکتے کہ ایک قبلہ تو سترہ ہو اور دوسرا قبلہ خانہ کعبہ، حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ امام بخاری ؒ اس وہم کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مکے میں بھی سترے کی ضرورت ہے۔ حافظ ابن حجرؒ مزید لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک تو امام بخاری ؒ نے محدث عبدالرزاق کے ایک باب کی تردید کی ہے۔ جو انھوں نے اپنی مصنف میں قائم کیا ہے کہ مکے میں کوئی چیز نماز کو توڑ نہیں سکتی، لہٰذا وہاں سترے کی ضرورت نہیں۔ پھر انھوں نے حدیث ابن جریج ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد حرام میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے کوئی سترہ نہیں تھا۔ لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے۔ اس روایت کو اصحاب السنن نے بھی بیان کیا ہے۔ اس کے راوی بھی ثقہ ہیں، لیکن یہ روایت معلول ہے، کیونکہ اس روایت کو کثیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں جبکہ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے نہیں سنا، بلکہ اپنے کسی گھر والے سے سنی ہے، وہ میرے دادا سے بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کےذریعے سے مذکورہ روایت کے ضعف پرتنبیہ کی ہے اوربتایا ہے کہ مشروعیت سترہ کے متعلق مکہ اور غیر مکہ میں کوئی فرق نہیں اور اپنے استدلال میں حدیث ابی جحیفہ ؓ پیش کی ہے۔ شوافع کا بھی یہی مشہور مسلک ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا مکہ اور غیر مکہ سب جگہ ممنوع ہے، البتہ بعض فقہاء نے طواف کرنے والوں کے لیے ضرورت کے پیش نظر گنجائش نکالی ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرسکتے ہیں، دوسروں کے لیے اس کی اجازت نہیں ہے۔ بعض حنابلہ نے نمازی کے آگے سے گزرنے کو تمام مکہ میں جائز قراردیا ہے۔ (فتح الباري:745/1) اس سلسلے میں ہمار ا مؤقف یہ ہے کہ مسجد حرام میں بھی نمازی کے آگے سے گزرنا صحیح نہیں اور وہاں بھی سترے کی پابندی ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو پیش کیا ہے۔
2۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ مؤلف نے یہ باب اس خیال کی تردید کے لیے قائم کیا ہے کہ اگر مسجد حرام میں سترے کی پابندی کرنی ہو تو اس سے لوگوں کو تنگی ہوگی، کیونکہ وہاں سب لوگ عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، کوئی نماز پڑھتا ہے تو کوئی طواف کرتا ہے، اس لیے وہاں سترے کی چنداں ضرورت نہیں۔ لیکن مؤلف نے اس عنوان سے اس خیال کی تردید فرمائی اور مکہ مکرمکہ میں بھی سترے کی ضرورت کو بیان فرمایا۔