تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رافضیوں کا دعوی ہے کہ قرآن کریم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امامت کا ذکر تھا جسے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نکال دیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس دعوے کی تردید میں وہ آثار پیش کیے ہیں جو خاص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں۔ جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ہر وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے احوال سے خوب واقف تھے اور محمد ابن حنفیہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے ہیں ان حضرات کو ان باتوں کی خبر معلوم نہ ہوئی تو دوسرے لوگوں کو کیسے پتا چل گیا۔
2۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دعوی باطل اور خود ساختہ ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت و امامت کے متعلق انھیں کچھ معلومات ہوتیں تو ان حضرات کواس کا ضرور علم ہوتا اور وہ اسے ہر گز نہ چھپاتے۔(فتح الباری 9/82)۔
نوٹ:۔ دور حاضر میں بڑے زور شور سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید کا موجودہ نسخہ نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ اس میں ترمیم و اضافہ کر کے ایک نیا ایڈیشن بزور حکومت کیا گیا اور وہی نسخہ آج ہمارے ہاں رائج ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس پروپیگنڈے کے متعلق اپنی گزارشات پیش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پورا قرآن تحریری شکل میں موجود تھا اور جو آیت بھی نازل ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاتب کو بلا کر ہدایت جاری فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو۔ یہ تحریر جو مختلف اجزا و صحف میں موجود تھی اسے سرکاری تحریری کہنا چاہیے اسی تحریر کی روشنی میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واقعہ یمامہ کے بعد سرکاری نسخہ مرتبہ فرمایا: پھر اسی سرکاری نسخے کی بنیاد پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں وہ سرکاری نسخے لکھے گئے۔ جو آپ نے مختلف علاقوں میں بھیجے۔ ان نسخوں کا حفظ کے ساتھ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لکھے ہوئے مختلف اجزا کے ساتھ تقابل کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ چونکہ ابتدائی طور پرقرآن مجید قریش کے لب و لہجے کو اساس اور بنیاد قرار دیا گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت راشدہ میں عجمی عنصر کی کثرت اور عجمی لہجوں کے حملے کی وجہ سے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تیار کردہ سرکاری نسخے پر نظر ثانی کی گئی اور اس وقت جو نسخہ تیار کیا گیا اس میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں تمام متواتر قراءت کو سمو دینے کا اہتمام کیا گیا اور تمام شذوذ قرآءت کو ایک طرف کر دیا گیا۔ پھر انفرادی اور مشکوک دستاویزات کو ضائع کر دیا گیا۔ بحث مباحثے اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوئی مواد باقی نہ رہے۔ اب وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بعینہ وہی قرآن تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنی زندگیوں میں بار بار پڑھا اور اسے سر کاری دستاویز کے طور پر لکھوایا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بر وقت کوشش اس قدر کار گر ثابت ہوئی کہ آج تک اس میں ایک حرف کی بھی کمی بیشی نہیں ہو سکی۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں بڑی گران قدر معلومات فراہم کی ہیں، جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جب انتقال ہوا تو اسلام جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا بحر قلزم اور سواحل یمن سے گزر کر خلیج فارس اور فرات کے کناروں تک اسلام کی روشنی پہنچ چکی تھی اس وقت جزیرہ عرب میں اس قدر شہر اور بستیاں آباد ہو چکی تھیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں جانتا۔ یمن بحرین عمان نجد بنوطے کے پہاڑ مضر، ربیعہ اور قضاعہ کی آبادیاں، طائف مکہ اور مدینہ کے تمام لوگ مسلمان ہو چکے تھے ان شہروں میں مساجد بھر پور آباد تھیں ہر شہر ہر گاؤں اور ہر بستی کی مساجد میں قرآن پڑھا پڑھایا جاتا تھا۔ بچے عورتیں اور دیگر افراد قرآن جانتے تھے اور ان کے پاس تحریری طور پر قرآن کے نسخے موجود تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو اس وقت مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ وہ ایک جماعت اور ایک ہی دین سے وابستہ تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت راشدہ اڑھائی برس رہی۔ ان کی خلافت میں فارس و روم کے کچھ علاقے اور یمامہ کا پورا علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ قرآن مجید کی قرآءت میں اضافہ ہوا۔ لوگوں نے اپنے لیے قرآن مجید کے نسخے تحریر کیے الغرض قرآن مجید کے نسخے ہر شہر میں موجود تھے اور انھی کو پڑھایا جاتا تھا۔ آپ کے دور حکومت میں بہت سے فتنوں نے سر اٹھایا لیکن ایک سال گزرنے نہیں پایا تھا کہ حالات اعتدال پر آگئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب انتقال ہوا تو صورت حال صحیح ڈکر پر تھی۔ آپ کی وفات کے بعد مسند خلافت کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زینت بخشی۔ فارس پورا فتح ہو گیا شام الجزائر مصر اور افریقہ کے بعض علاقے اسلامی حکومت میں شامل ہوئے۔ مساجد تعمیر ہوئیں قرآن مجید پڑھا جانے لگا تمام علاقوں میں قرآن مجید کے نسخے تیار کیے گئے مشرق و مغرب تک تمام مکاتب میں قرآن کریم کی تلاوت ہونے لگی۔ پورے دس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلام اور اہل اسلام میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ ایک ہی ملت کے پابند تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کے وقت مصر عراق شام اور یمن کے علاقوں میں کم و بیش ایک لاکھ نسخے لکھے گئے ہوں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اسلامی فتوحات وسیع ہوئیں اور قرآن کریم کی اشاعت مفتوحہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر ہوئی۔ قرآن مجید کےشائع شدہ نسخوں کا اس وقت شمار نا ممکن ہو گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سے اختلافات کا دور شروع ہوا۔ رافضیوں کی تحریک نے زور پکڑا۔ اس تحریک کی بنا پر قرآن مجید کی حفاظت کے متعلق اعتراضات و شبہات پیدا ہوئے۔ صورت حال یہ تھی کہ نابغہ اور زہیرکے اشعار میں اگر کوئی کمی و بیشی کر دے۔ تو یہ ممکن نہیں بلکہ اسے دنیا میں ذلیل و خوار ہونا پڑے گا۔ قرآن مجید کا معاملہ تو اس سے جدا گانہ ہے۔ اس وقت قرآن مجید اندلس، بربر، سوڈان، کابل، خراسان، ترک اور ہندوستان تک پھیل چکا تھا اس تحریک میں رافضیوں کی حماقت کا پتا چلتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی جمع و تالیف میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مورد الزام اور متہم ٹھہراتے ہیں یہی حال مسیحی اور سماجی مشزیوں کا ہے یہ لوگ رافضیوں سے سیکھ کر قرآن مجید کو اپنی لکھی ہوئی تحریروں کی طرح محرف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان حالات میں ایک حرف کی کمی بیشی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کسی دوسرے شخص کے لیے ناممکن تھی۔ رافضیوں اور ان کے تلامذہ کی یہ غلط بیانی یوں بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانچ سال نو ماہ بااختیار خلیفہ رہے اور ان کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے قرآن کریم بدلنے کا حکم دیا اور نہ اپنی حکومت ہی میں قرآن مجید کا کوئی دوسرا نسخہ شائع کیا۔ یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت پوری اسلامی سلطنت میں غلط اور محرف قرآن پڑھا جاتا رہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے آسانی سے گوارا کر لیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد ابن حنفیہ کا بیان جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کیا ہے اسے مذکورہ وضاحت کے ساتھ ملا کرپڑھا جائے تو اس مذموم لٹریچر کی حقیقت کا پتا چلتا ہے جس کی بنیاد پر قرآن کریم کو محرف ثابت کیا جاتا ہے۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ عظیم الشان تواتر کے سامنے ان مشکوک ذخیرہ روایات کی کیا حقیقت ہے۔ جب کوئی تعارض ہی نہیں تو تطبیق و ترجیح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بہر حال قرآن مجید کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے بھی کوششیں ہوئی اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی لیکن وہ کسی صورت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن ) کو اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (الحجر15۔9)