تشریح:
1۔ بہت سے ایسے حافظ دیکھے گئے ہیں۔ جنھوں نے قرآن کے دَور اور اس کی تلاوت سے رو گردانی کی، پھر قرآن مجید ان کے سینوں سے نکل گیا۔
2۔ اس حدیث میں قرآن بھول جانے کی نسبت انسان اپنی طرف کرے اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن بھلایا ہے اور وہی ہر چیز کی تقدیربناتا ہے، نیز نسیان ترک ہے اس لیے یہ کہنا کہ میں نے ترک کیا اور نسیان کا قصد کیا ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس کے علاوہ نسیان کی نسبت اپنی طرف کرنا گویا تساہل اور تغافل کی نسبت اپنی طرف کرنا ہے اس لیے منع کی گیا ہے۔
3۔ بہر حال نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ وہ تمام افعال کا خالق ہے اور انسان کی طرف اس بنا پر جائز ہے کہ وہ اس کا سبب ہے اور اس کی نسبت شیطان کی طرف بھی ہے کیونکہ اس کی وسوسہ اندازی سے انسان غفلت کا شکار ہوا ہے، بہر حال انسان کو قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہنا چاہیے تاکہ یہ بھول کا شکار نہ ہو۔