تشریح:
1۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سورۃ البقرہ کہا ہے، لہذا اس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔
2۔ حجاج بن یوسف کا بھی یہی موقف تھا کہ سورۃ البقرہ وغیرہ نہیں کہنا چاہیے، چنانچہ اس نے منیٰ میں ایک مرتبہ خطبہ دیا تو دوران خطبہ میں یہی انداز اختیار کیا۔ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے جب سنا تو انھوں نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کر کے اس اسلوب کی تردید کی۔ اس میں "سورہ بقرہ" ہی استعمال کیا گیا ہے۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1750) اس امر کی متعدد علماء نے صراحت کی ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کہنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض اہل اسلام سے اس کی کراہت منقول ہے۔ (فتح الباري:110/9)