تشریح:
(1) یہ آیت کریمہ تبتل اور خصی ہونے کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں پاکیزہ اور حلال چیزوں کو اپنے آپ پر حرام کرلینا ہے جس کی آیت میں ممانعت ہے۔
(2) محدود مدت تک کے لیے نکاح کرنے کو متعہ کہا جاتا ہے۔ اسے ایک غزوے میں حلال کیا گیا تھا، آخر کار غزوۂ اوطاس کے بعد قطعی طور پر ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ ایک روایت میں ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا، پھر انھوں نے اسے ترک کر دیا۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ بعد میں نکاح متعہ کو حرام کر دیا گیا۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 207/7، و فتح الباري:150/9)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت کریمہ کی شان نزول اس طرح مروی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے رسول! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو مجھے عورتوں کی خواہش پیدا ہوتی ہے، اس وجہ سے میں نے اپنے لیے گوشت حرام کرلیا ہے تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3054، و عمدة القاري: 152/14)