تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ سترے کے متعلق مزید توسع بیان کرتے ہیں کہ گھر کے استعمال کی چیزوں کو بھی سترہ بنایا جا سکتا ہے، خواہ وہ زمین میں نصب ہوں یا زمین سے اٹھی ہوئی ہوں، جیسے چارپائی وغیرہ کو درمیان میں لے کر نماز پڑھنا۔ روایت میں (يَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ) کے الفاظ ہیں جن کے معنی’’ چارپائی کے درمیان کھڑے ہونا‘‘ ہیں، چنانچہ علامہ اسماعیلی ؒ نے اعتراض کیا کہ مذکورہ روایت قائم کردہ عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ عنوان یہ ہے کہ چار پائی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا، لیکن اس کے متبادر معنی یہ ہیں کہ چارپائی کے وسط میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنا، پھرخود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ امام بخاری ؒ نے خود اس سلسلے میں مسروق عن عائشہ ؓ کی روایت آئندہ بیان کی ہے جو اس عنوان کے مطابق ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:’’میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چارپائی پر تھی۔‘‘ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:511) اس لیے امام بخاری ؒ کو مسروق عن عائشة والی روایت یہاں بیان کرنی چاہیے تھی۔ علامہ کرمانی ؒ نے اصل اعتراض کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ حروف جرایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوجاتے ہیں۔ لہذا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں (الصلاة إلى السرير) کے معنی (الصلاة على السرير) ہیں۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں (الصلاة على السرير) کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ (شرح الکرماني:160/2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ (يَتَوَسَّطُ) کے دو معنی ہیں۔ چارپائی پر اس کے وسط میں نماز پڑھنا اور چارپائی کو سامنے کرکے اس سے نیچے نماز پڑھنا۔ مسروق عن عائشة ؓ کی روایت نے وضاحت کردی کہ اس مقام پر دوسرے معنی مراد ہیں۔ (فتح الباري:751/1)
2۔ دراصل جب تک کسی حدیث کے تمام طرق اور جملہ کلمات ماثورہ سامنے نہ ہوں، حدیث کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ حدیث کے متعلق بھی راقم کافی دن تذبذب کا شکار رہا کیونکہ بعض روایات میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ہوتی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاؤں کو سجدے کے وقت ہاتھ لگاتے تو میں انھیں سمیٹ لیتی۔ چارپائی سے نیچے اترکر نماز پڑھنے کی صورت میں پاؤں کو ہاتھ لگانے اور پھر انھیں سمیٹنے کی قطعاً ضرورت نہیں، اس لیے جنازے کی طرح لیٹنا اور پاؤں سمیٹنا باہم متضاد ہیں۔ روایات کے تتبع سے معلوم ہوا کہ یہاں دوواقعات ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ©۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ چارپائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے اتر کر نماز پڑھتے۔ اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ کا جنازے کی طرح لیٹنا صحیح ہے۔ اس میں پاؤں کو ہاتھ لگانے اور انھیں سمیٹنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس صورت کو اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور اس صورت کو حضرت عائشہ ؓ سے حضرت اسود ؓ ، حضرت مسروق ؒ اور حضرت عروہ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:383۔ 384۔ 508۔ 511۔512۔ 514۔ 519۔ 997اور 6276۔ ©۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جہاں سیدہ عائشہ ؓ لیٹی ہوتی تھیں۔ اس صورت میں سجدے کے وقت آپ حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو ہاتھ لگاتے تو وہ انھیں سمیٹ لیتیں۔ اس صورت کو حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان اور حضرت قاسم، حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں۔ نماز کی یہ کیفیت امام بخاری ؒ نے مندرجہ ذیل احادیث میں بیان کی ہیں۔ ملاحظہ ہو حدیث:383۔513۔519۔اور1209۔ واضح رہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اس حدیث جس میں ہے کہ عورت، گدھا اور کتا اگرنمازی کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، کے اندازِ بیان اور طرز ادا کے متعلق شکایت ہے کہ اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت، گدھا اور کتا سب برابر ہیں۔ حالانکہ عورت اور دیگر دونوں چیزوں میں بہت فرق ہے۔ راوی کو بیان کرتے وقت اس فرق کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔ ہم آئندہ اصل مقام پر اس کی وضاحت کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔