تشریح:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! رشتے ناتے کے لحاظ سے آپ کا رجحان قریش کی طرف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپ کے پاس کچھ ہے جسے میں پسند کروں۔‘‘ انھوں نے کہا: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی دختر سے شادی کر لیں جو آپ کے چچا کی بیٹی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ تو میرے لیے جائز نہیں کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔‘‘ (صحيح مسلم، الرضاع، حديث: 3581 (1446))
(2) حضرت حمزہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لہب کی لونڈی حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا تھا، اس لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ کے رضاعی بھائی تھے اور نسب کے اعتبار سے آپ کے چچا تھے۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ثوبیہ لونڈی کا دودھ پیا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحيح البخاري، النكاح، حديث: 5101)
(3) حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے نام کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں: امامہ، عمارہ، سلمیٰ، عائشہ، فاطمہ، امۃاللہ اور یعلی وغیرہ۔ بعض مؤرخین نے ام فضل بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ اس کی کنیت ہے۔ (فتح الباري: 178/9)