تشریح:
(1) حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی لیکن آپ نے اسے شرف قبولیت سے نہ نوازا کیونکہ دو بہنیں بیک وقت کسی کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔ ممکن ہے کہ اس کی حرمت کا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کو علم نہ ہو یا وہ اسے آپ کی خصوصیت کے طور پر جائز سمجھتی ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے احکام دوسروں سے مختلف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لوگوں کی یہ بات پہنچی کہ آپ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے وضاحت فرمائی: وہ بھی میرے لیے حلال نہیں ہے اور اس کی حرمت کے دوسبب ہیں: ایک تو یہ کہ وہ میرے زیر پرورش ہے، یعنی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر تم اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے مجھے پیش نہ کیا کرو۔
(2) اس حدیث کی مطابقت عنوان کے دوسرے جز سے ہے کہ جو رشتہ نسب کے سبب حرام ہے وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔
ضروری تنبیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سُہیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر کے دن پیدائش ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کے جاکر اسے خوشخبری سنائی، اس خوشی میں اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔ جب وہ مرا تو ایک سال بعد خواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اسے انتہائی بری حالت میں دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مرنے کے بعد مجھے کبھی راحت نصیب نہیں ہوئی صرف پیر کے دن عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري: 181/9) صحیح بخاری کی اس روایت اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے جشن میلاد کا جواز کشید کیا جاتا ہے کہ اگر ابو لہب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن پانی دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا، اہل ایمان کو اس دن بڑھ چڑھ کر خوشی کا اہتمام کرنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اللہ کے ہاں اس خوشی کی بنا پر خیرات وبرکات حاصل ہوں گی؟ اس استدلال پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کے بعد تئیس (23) مرتبہ آپ کی پیدائش کا دن آیا، آپ نے جشن میلاد کا نہ خود اہتمام کیا اور نہ اس کے اہتمام ہی کا حکم دیا، یہ اس لیے کہ شریعت میں جشن میلاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے اربعہ سے بھی اس کے متعلق کچھ منقول نہیں۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن میں پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے نبوت ملی تھی۔‘‘ (صحيح مسلم، الصيام، حديث: 2747 (1162)۔197) ہمیں اس دن روزے کا اہتمام کرنا چاہیے، وہ بھی ہر پیر کو، لیکن سال کے بعد جشن میلاد منانا اور جلوس نکالنا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اتفاق سے بقول ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش بھی بارہ ربیع الاول ہے جسے چند سال پہلے بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ دن بہت بھاری تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آرہا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما تو آپ کی وفات کی وجہ سے بہت نڈھال تھیں لیکن ہم اسے دن جشن منائیں اور خوشی کا اطہار کریں ایسا کرنا صحابۂ کرام سے محبت کے منافی ہے۔ ٭مذکورہ روایت مرسل ہے اور قرآن کریم کے مخالف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ دیں گے اور انھیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔‘‘ (الفرقان: 23) جبکہ مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کو آزادی کی وجہ سے پانی دیا جائے گا، نیز حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کفر کی حالت میں یہ خواب دیکھا جو قابل حجت نہیں ہے۔ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو خصوصیت پر محمول کیا جائے گا۔ بہرحال اس روایت سے جشن میلاد کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت ہی میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش ہے۔ والله اعلم