تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ دودھ پینے سے صرف عورت کے ساتھ رشتۂ رضاعت قائم ہوتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفصیل ہے۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس افلح آئے تو میں نے پردہ کر لیا۔انھوں نے کہا: آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں جبکہ میں آپ کا چچا ہوں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: وہ کیسے؟ انھوں نے کہا: آپ کو میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے۔ میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے اس کے شوہر نے تو نہیں پلایا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرا چچا ہے اور تیرے پاس آسکتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2057) اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے تمام رشتے داردودھ پینے والے کے عزیز و اقارب بن جاتے ہیں اور عورت کا خاوند اس کا رضاعی باپ بن جاتا ہے۔
(2)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ اگر ایک آدمی کی دو بیویاں ہوں،ان میں سے ایک نے کسی لڑکے کو اور دوسری نے کسی لڑکے کو دودھ پلایا ہو تو اس لڑکے اور لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں لبن فحل کا اعتبار ہوگا، چونکہ دودھ خاوند کی وجہ سے آتا ہے، اس لیے اس کے اثرات دونوں بیویوں میں ہوں گے اور ان کے دودھ پلانے سے حرمت رضاعت قائم ہوگی۔ (فتح الباري: 190/9)