تشریح:
1۔ اس روایت کے مطابق سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو میں اس بات کو ناپسند کرتی کہ آپ کی طرف منہ کروں، اس لیے میں آہستہ سے کھسک کر پائنتی کی طرف آتی پھر اٹھتی ۔ حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے استقبال اور مواجہت کا طریقہ چھوڑ کر آہستہ سے کھسک جانے کا طریقہ اختیار کرنا عنوان کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن یہاں ایک اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کی ہے کہ اس کا دارومدار انتشار طبیعت پر ہے۔ اگر دوسرے آدمی کے نمازی کی طرف رخ کرنے سے خیالات میں تکدار اور طبیعت میں انتشار پیدا ہو تو ایسا کرنا مکروہ ہے بصورت دیگرمکروہ نہیں جبکہ یہ وضاحت مذکورہ روایت میں نہیں ہے۔ لیکن روایت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ استقبال کے طریقے سے ہٹ کر آہستگی کے ساتھ کھسک جانے کے طریقے کو اسی لیے تو اختیار کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طبیعت میں انتشار کا باعث نہ ہو اگرچہ رسول اللہ ﷺ ایسی باتوں سے مامون اور بے خوف تھے تاہم حضرت عائشہ ؓ کا احتیاط فرمانا مذکورہ اشکال کو دور کر نے کے لیے کافی ہے۔
2۔ آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک اسنادی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس روایت کو علی بن مسہر نے امام اعمش سے دو سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ © عن مسلم عن مسروق عن عائشة ؓ جیسا کہ روایت کا متن ہے۔ © عن إبراهیم عن الأسود عن عائشة ؓ یہ روایت بالمعنی ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے خود پہلے (حدیث نمبر508 میں) بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:759/1)