باب: دو ستونوں کے بیچ میں نمازی اگر اکیلا ہو تو نماز پڑھ سکتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer non-congregational As-Salat (the prayers) between the pillars)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
511.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت اسامہ بن زید ؓ ، حضرت بلال ؓ اور حضرت عثمان بن طلحہ حجبی ؓ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، پھر اندر سے حضرت عثمان ؓ نے دروازہ بند کر دیا اور آپ کعبے کے اندر ٹھہرے رہے۔ جب باہرتشریف لائے تو میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا: نبی ﷺ نے (بیت اللہ کے اندر) کیا کام کیا؟ انھوں نے بتایا: آپ نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب اور ایک کو دائیں جانب اور تین ستونوں کو اپنے عقب میں کر لیا، اس وقت کعبے کی عمارت چھ ستونوں پر تھی، پھر آپ نے نماز پڑھی۔ (امام بخاری ؓ کہتے ہیں: ہم سے) اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ سے امام مالک ؒ نے فرمایا: آپ نے دو ستونوں کو اپنی دائیں جانب کیا تھا۔
تشریح:
عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی۔ لوگوں نے ہمیں مجبور کردیا، اس بنا پر ہم نے دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔ نماز کے بعد حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ ہم عہد رسالت میں اس سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:229) اسی طرح قرہ بن ایاس مزنی روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت میں ہمیں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا تھا اور اس سے سختی کے ساتھ روکا جاتا تھا۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1002) ان روایات سے معلوم ہوا کہ ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا منع ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں غیر جماعۃ کی قید لگا کر واضح کردیا کہ اس ممانعت کاتعلق نماز باجماعت سے ہے، اگر کوئی اکیلا پڑھتا ہے تواس میں چنداں حرج نہیں۔ اس کے لیے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل پیش کیا ہے کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر دوستونوں کے درمیان نماز ادا کی، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:’’ستونوں کے درمیان اکیلا آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، کراہت صرف بحالت جماعت ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں ہے۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
500
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
505
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
505
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
505
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت اسامہ بن زید ؓ ، حضرت بلال ؓ اور حضرت عثمان بن طلحہ حجبی ؓ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، پھر اندر سے حضرت عثمان ؓ نے دروازہ بند کر دیا اور آپ کعبے کے اندر ٹھہرے رہے۔ جب باہرتشریف لائے تو میں نے حضرت بلال ؓ سے پوچھا: نبی ﷺ نے (بیت اللہ کے اندر) کیا کام کیا؟ انھوں نے بتایا: آپ نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب اور ایک کو دائیں جانب اور تین ستونوں کو اپنے عقب میں کر لیا، اس وقت کعبے کی عمارت چھ ستونوں پر تھی، پھر آپ نے نماز پڑھی۔ (امام بخاری ؓ کہتے ہیں: ہم سے) اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ سے امام مالک ؒ نے فرمایا: آپ نے دو ستونوں کو اپنی دائیں جانب کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ایک امیر کے پیچھے نماز پڑھی۔ لوگوں نے ہمیں مجبور کردیا، اس بنا پر ہم نے دوستونوں کے درمیان نماز پڑھی۔ نماز کے بعد حضرت انس بن مالک ؓ نے فرمایا کہ ہم عہد رسالت میں اس سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:229) اسی طرح قرہ بن ایاس مزنی روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت میں ہمیں ستونوں کے درمیان صف بنانے سے منع کیا جاتا تھا اور اس سے سختی کے ساتھ روکا جاتا تھا۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1002) ان روایات سے معلوم ہوا کہ ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا منع ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں غیر جماعۃ کی قید لگا کر واضح کردیا کہ اس ممانعت کاتعلق نماز باجماعت سے ہے، اگر کوئی اکیلا پڑھتا ہے تواس میں چنداں حرج نہیں۔ اس کے لیے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کا عمل پیش کیا ہے کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر دوستونوں کے درمیان نماز ادا کی، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:’’ستونوں کے درمیان اکیلا آدمی نماز پڑھ سکتا ہے، کراہت صرف بحالت جماعت ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے میں ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ آنحضرت ﷺ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اسامہ بن زید ؓ، بلال ؓ اور عثمان بن طلحہ حجبی ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ پھر عثمان ؓ نے کعبہ کا دروازہ بند کر دیا۔ اور آپ ﷺ اس میں ٹھہرے رہے۔ جب آپ ﷺ باہر نکلے تو میں نے بلال ؓ سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ نے اندر کیا کیا؟ انھوں نے کہا کہ آپ نے ایک ستون کو تو بائیں طرف چھوڑا اور ایک کو دائیں طرف اور تین کو پیچھے اور اس زمانہ میں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ پھر آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام مالک نے یہ حدیث یوں بیان کی کہ آپ ﷺ نے اپنے دائیں طرف دو ستون چھوڑے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلا کہ اگر اکیلا نماز پڑھنا چاہیے تو دوستونوں کے بیچ میں پڑھ سکتا ہے۔ شارح حدیث حضرت مولانا وحیدالزماں ؒ فرماتے ہیں کہ یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ جب خانہ کعبہ چھ ستونوں پر تھا تو ایک طرف خواہ مخواہ دوستون رہیں گے اور ایک طرف ایک۔ امام احمد ؒ اوراسحاق ؒ اوراہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اکیلا شخص ستونوں کے بیچ میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ لیکن ستونوں کے بیچ میں صف باندھنا مکروہ ہے اورحنفیہ اورشافعیہ اور مالکیہ نے اس کو جائز رکھا ہے۔ تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے امام احمد بن حنبل کا مذہب حق ہے۔ اورحنفیہ اور مالکیہ کو اس مسئلہ میں شاید ممانعت کی حدیثیں نہیں پہنچیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': 'Abdullah bin 'Umar said, "Allah's Apostle (ﷺ) entered the Ka’bah along with Usama bin Zaid, Bilal (RA) and 'Uthman bin Talha Al-Hajabi and closed the door and stayed there for some time. I asked Bilal (RA) when he came out, 'What did the Prophet (ﷺ) do?' He replied, 'He offered prayer with one pillar to his left and one to his right and three behind.' In those days the Ka’bah was supported by six pillars." Malik said: "There were two pillars on his (the Prophet's) right side."