تشریح:
(1) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سُہیلی کے حوالے سے ان مقامات کی تفصیل دی ہے جہاں متعے کی حرمت کا ذکر ہوا ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں: ٭ خیبر ٭عمرۃ القضاء ٭ فتح مکہ ٭غزوۂ اوطاس ٭ غزوۂ تبو٭ حجۃ الوداع۔ پھر انھوں نے لکھا ہے کہ سہیلی نے غزوۂ حنین کا ذکر نہیں کیا یا تو ان سے سہو ہو گیا ہے یا انھوں نے جان بوجھ کر اسے چھوڑ دیا ہے کیونکہ راویوں کی غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ روایات کی چھان بین کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ غزوۂ خیبر اور فتح مکہ کے علاوہ کوئی صحیح اور صریح حدیث باقی نہیں رہی۔
(2) امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نکاح متعہ کی تحریم اور اباحت دو مرتبہ ہوئی ہے: غزوۂ خیبر سے پہلے مباح تھا، خیبر میں اس کی حرمت کا حکم ہوا، پھر فتح مکہ کے موقع پر اس کی اباحت کا حکم ہوا اور وہی اوطاس کا سال ہے، اس کے بعد ہمیشہ کے لیے اسے حرام کر دیا گیا۔ (فتح الباري: 212/9) حضرت سبرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تمھیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی، اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3419 (1406)) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران خطبہ میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تین مرتبہ اجازت دی، پھر اسے حرام کر دیا۔ اللہ کی قسم! مجھے کسی بھی شادی شدہ کے نکاح متعہ کا علم ہوا تو میں اسے پتھروں کے ساتھ رجم کردوں گا۔ (سنن ابن ماجة، النکاح، حدیث: 1963)
(3) اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ صرف شیعہ رافضی اس کی اباحت کے قائل و فاعل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آخر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ یہ ہمیشہ کے لیے منسوخ ہو چکا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ متعے کا ناسخ۔ طلاق، عدت اور میراث ہے، یعنی اگر متعہ جائز ہوتا تو طلاق کا وجود نہ ہوتا اور نہ ضابطۂ وراثت ہی پر عمل ہوتا۔ (المصنف لعبد الرزاق: 505/7، رقم: 14046، و فتح الباري: 216/9)