تشریح:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے والے اور باتیں کرنے والے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:694) حضرت امام مالک ؒ سے بھی سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی کراہت منقول ہے۔ امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جن روایات میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں، چنانچہ امام ابو داؤد ؒ لکھتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کی جس روایت میں سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، اس کی تمام سندیں اور طرق ضعیف ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں سب کمزور ہیں جن حضرات نے اس طرح نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، وہ اس لیے کہ شاید سونے والا ایسی حرکت کرے جس سے نمازی کا خشوع خراب ہو۔ (فتح الباري:759/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قریب سو رہا ہو تو بذات خود اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے میں کوئی خرابی نہیں۔ لیکن اگر اس کے خراٹوں سے بے اطمینانی کی صورت پیدا ہو جائے یا کسی اور بات سے خشوع متاثر ہوتو اس صورت میں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اگر اس قسم کا کوئی اندیشہ نہ ہوتو کسی کی کراہت نہیں۔ واللہ أعلم۔