مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
512.
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب بیت اللہ میں داخل ہوتے تو سامنے کی طرف بڑھتے چلے جاتے اور بیت اللہ کے دروازے کو اپنی پشت کی طرف کر لیتے۔ پھر آگے بڑھتے یہاں تک کہ جب ان کے اور سامنے والی دیوار کے درمیان تقریبا تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح ابن عمر ؓ نماز پڑھنے کے لیے اس جگہ کا رخ کرتے جس کے متعلق انہیں حضرت بلال ؓ نے اطلاع دی تھی کہ وہاں نبی ﷺ نے نماز پڑھی ہے۔ (حضرت ابن عمر ؓ وضاحت فرماتے ہیں کہ) ہم میں سے کسی کے لیے اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ بیت اللہ کے جس گوشے میں چاہے نماز پڑھے۔
تشریح:
1۔ یہ باب بلاترجمہ ہے، گویا پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے، کیونکہ اگرچہ اس میں ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کی صراحت نہیں، تاہم اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےدیوار کعبہ سے تین ذراع کے فاصلے پر نماز پڑھی ہے اور یہ جگہ ستونوں کے درمیان واقع تھی۔ (فتح الباري:749/1) اس روایت پر کوئی جدید عنوان قائم کیا جاسکتا ہے، مثلاً:’’بیت اللہ کے اندر جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔‘‘ یہ مضمون حضرت ابن عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس بلاعنوان باب کو پہلے باب کی فصل سمجھنا چاہیے۔ اس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوستونوں کے درمیان کھڑے ہوئے، نیز آپ کے اور اس دیوار کے درمیان جس کی طرف آپ نے نماز کے لیے رخ کیا، تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ واضح رہے کہ یہاں حضرت ابن عمر ؓ نے خود ہی وضاحت کردی ہے کہ میں اس قسم کاتتبع واجب یا ضروری سمجھ کر نہیں کرتا بلکہ مستحب اور پسندیدہ سمجھ کر اختیارکرتا ہوں۔ یقیناً حضرت ابن عمر ؓ کی یہ رائے انتہائی متوان ہے کہ ایسے مباح امور کو لازمی اور واجب سمجھ کر نہ کیا جائے، باقی ان کا استحباب تو اپنی جگہ برقرار ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
501
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
506
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
506
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
506
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جب بیت اللہ میں داخل ہوتے تو سامنے کی طرف بڑھتے چلے جاتے اور بیت اللہ کے دروازے کو اپنی پشت کی طرف کر لیتے۔ پھر آگے بڑھتے یہاں تک کہ جب ان کے اور سامنے والی دیوار کے درمیان تقریبا تین ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح ابن عمر ؓ نماز پڑھنے کے لیے اس جگہ کا رخ کرتے جس کے متعلق انہیں حضرت بلال ؓ نے اطلاع دی تھی کہ وہاں نبی ﷺ نے نماز پڑھی ہے۔ (حضرت ابن عمر ؓ وضاحت فرماتے ہیں کہ) ہم میں سے کسی کے لیے اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ بیت اللہ کے جس گوشے میں چاہے نماز پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ باب بلاترجمہ ہے، گویا پہلے باب کا نتیجہ یا تکملہ ہے، کیونکہ اگرچہ اس میں ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کی صراحت نہیں، تاہم اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےدیوار کعبہ سے تین ذراع کے فاصلے پر نماز پڑھی ہے اور یہ جگہ ستونوں کے درمیان واقع تھی۔ (فتح الباري:749/1) اس روایت پر کوئی جدید عنوان قائم کیا جاسکتا ہے، مثلاً:’’بیت اللہ کے اندر جہاں چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔‘‘ یہ مضمون حضرت ابن عمر ؓ کے ارشاد سے ثابت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شراح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس بلاعنوان باب کو پہلے باب کی فصل سمجھنا چاہیے۔ اس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوستونوں کے درمیان کھڑے ہوئے، نیز آپ کے اور اس دیوار کے درمیان جس کی طرف آپ نے نماز کے لیے رخ کیا، تقریباً تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ واضح رہے کہ یہاں حضرت ابن عمر ؓ نے خود ہی وضاحت کردی ہے کہ میں اس قسم کاتتبع واجب یا ضروری سمجھ کر نہیں کرتا بلکہ مستحب اور پسندیدہ سمجھ کر اختیارکرتا ہوں۔ یقیناً حضرت ابن عمر ؓ کی یہ رائے انتہائی متوان ہے کہ ایسے مباح امور کو لازمی اور واجب سمجھ کر نہ کیا جائے، باقی ان کا استحباب تو اپنی جگہ برقرار ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا انھوں نے نافع سے کہ عبداللہ بن عمر ؓ جب کعبہ میں داخل ہوتے تو سیدھے منہ کے سامنے چلے جاتے۔ دروازہ پیٹھ کی طرف ہوتا اور آپ آگے بڑھتے جب ان کے اور سامنے کی دیوار کا فاصلہ قریب تین ہاتھ کے رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے جس کے متعلق حضرت بلال ؓ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے یہیں نماز پڑھی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ بیت اللہ میں جس کونے میں ہم چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Whenever 'Abdullah entered the Ka'bah, he used to go ahead leaving the door of the Ka'bah behind him. He would proceed on till the remaining distance between him and the opposite wall about three cubits. Then he would off prayer there where the Prophet (ﷺ) had offered Salat, as Bilal informed me. Ibn 'Umar said, "It does not matter for any of us to offer prayers at any place inside the Ka'bah”.