قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ مَنْ قَالَ لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 322 .

5128. حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ قَالَتْ هَذَا فِي الْيَتِيمَةِ الَّتِي تَكُونُ عِنْدَ الرَّجُلِ لَعَلَّهَا أَنْ تَكُونَ شَرِيكَتَهُ فِي مَالِهِ وَهُوَ أَوْلَى بِهَا فَيَرْغَبُ عَنْهَا أَنْ يَنْكِحَهَا فَيَعْضُلَهَا لِمَالِهَا وَلَا يُنْكِحَهَا غَيْرَهُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَشْرَكَهُ أَحَدٌ فِي مَالِهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۃ البقرہ) میں ارشاد فرماتا ہے «فلا تعضلوهن‏» ”جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو عورتوں کے اولیاء تم کو ان کا روک رکھنا درست نہیں۔“ اس میں ثیبہ اور باکرہ سب قسم کی عورتیں آ گئیں اور اللہ تعالیٰ نے اسی سورت میں فرمایا «ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا‏» ”عورتوں کے اولیاء، تم عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو“ اور سورۃ النور میں فرمایا «وأنكحوا الأيامى منكم‏» ”جو عورتیں خاوند نہیں رکھتیں ان کا نکاح کر دو۔“تشریح:روک رکھنے کا مطلب نکاح نہ کرنے دینا اس آیت سے حضرت امام بخاری نے یہ نکالا کہ نکاح ولی کے اختیار میں ہے ورنہ روک رکھنے کا کوئی مطلب نہیں ہو سکتاان دونوں آیتوں میں اللہ نے اولیاء کی طرف خطاب کیا کہ نکاح نہ کرو یا نکاح کر دو تو معلوم ہوا کہ نکاح کرنا ولی کے اختیار میں ہے بعض علماء نے حدیث لا نکاح الا بولی کو بالغہ اور مجنون عورت کے ساتھ خاص کیا ہے اور ثیبہ یعنی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ مسلم اور ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ میں حدیث مروی ہے قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسھا من ولیھا یعنی بیوہ کو اپنے نفس پر ولی سے زیادہ اختیار ہے ۔اہلحدیث اور امام شافعی اور امام م احمد بن حمبل اور اکثر علماء کا یہی قول ہے کہ نکاح بغیر ولی کے صحیح نہیں ہوتا اور جس عورت کا کوئی ولی رشتہ دار زندہ نہ ہو تو حاکم یا بادشاہ اس کا ولی ہے اور اس باب میں صحیح حدیثیں وارد ہیں جن کو امام بخاری نے اپنی شرط پر ہونے کی وجہ سے نہ لا سکے ہیں ایک ابوموسیٰ کی حدیث کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں ہوتا اس کو ابوداؤد اور ترمذی اور ابن ماجہ نے نکالا ہے اور حاکم اور ابن حبان نے ان کو صحیح کہا ابن ماجہ کی ایک روایت میں یوں ہے کہ عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ کوئی عورت اپنا آپ نکاح کرے اور ترمذی اور ابن حبان اور حاکم نے نکالا کہ جو عورت بغیر اجازت ولی کے اپنا نکاح کرے اسی کا نکاح باطل ہے باطل ہے (وحیدی)

5128.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے درج زیل آیت کریمہ ”وہ آیات جو کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں تمہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں جنہیں تم وہ چاہتے ہو کہ ان سے نکاح کرلو۔“ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: یہ آیت ایسی لڑکی کے متعلق نازل ہوئی تھی جو کسی شخص کے زیر پرورش ہوتی شاید وہ اس کے مال و جائیداد میں شریک ہوتی اور وہی آدمی لڑکی کا زیادہ حقدار ہوتا جبکہ وہ اس سے رو گردانی کرتا، چنانچہ اس کے مال کے باعث کسی اور اس کا نکاح کرنے سے بھی پہلو تہی کرتا، مبادا کوئی دوسرا اس کے مال میں شریک ہو جائے، اس لیے وہ کسی مرد سے اس کی شادی نہیں ہونے دیتا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی دوسرا اس کے مال میں حصہ دار بنے.