تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کا نکاح منعقد ہونے کے لیے ولی کی اجازت شرط ہے، اس کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہوتا، چنانچہ مذکورہ حدیث کے مطابق زیر پرورش لڑکی کا ولی نہ خود اس کا نکاح کرتا اور نہ کسی دوسرے ہی سے نکاح کرنے دیتا۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا کہ ولی کو نکاح کا اختیار ہے۔ اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی تو ولی اسے کیونکر روک سکتا تھا، لہٰذا نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے، البتہ ایک حدیث میں ہے: ’’شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کے متعلق اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3476 (1421)) یہ حدیث مذکورہ احادیث کے مخالف نہیں ہے کیونکہ اس کے مطابق شوہر دیدہ کو اپنے خاوند کے متعلق انتخاب کا زیادہ حق دیا گیا ہے، انتخاب کے بعد ولی کی اجازت سے نکاح ہو سکے گا۔ والله اعلم